بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
3۔ حضرت ابن عباس اور جمہور مفسرین (رح) کے قول کے مطابق یہ ساری کی ساری سورۃ مکہ میں نازل ہوئی۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس (رض) اس کی تین آیتوں 68 تا 70 کو مدنی قرار دیتے ہیں۔ اس سورۃ سے اللہ تعالیٰ نے پہلے توحید پر، پھر نبوت پر اور پھر معاد (آخرت) پر کلام فرمایا ہے۔ نبیﷺ کی زندگی میں حضرت عمر (رض) نے حضرت ہشام (رض) بن حکیم کو اس سورۃ کی قرأت کرتے سنا اور ان سے وہ قرأتیں سنیں جو ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں پڑھائی تھیں چنانچہ حضرت عمر (رض) انہیں پکڑ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لے آئے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) اور ہشام (رض) دنوں کی قرأتوں کو صحیح قرار دیا اور فرمایا : یہ قرآن سات قرأتوں پر نازل ہوا ہے جو آسان ہو پڑھو۔ (شوکانی)