سورة النور - آیت 50

أَفِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ ۚ بَلْ أُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا ان کے دلوں میں کوئی مرض ہے، یا وہ شک میں پڑگئے ہیں، یا ڈرتے ہیں کہ ان پر اللہ اور اس کا رسول ظلم کریں گے؟ بلکہ وہ خود ہی ظالم ہیں۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف8۔ یعنی آخر یہ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدالت میں فیصلہ لے جانے سے کیوں کتراتے ہیں؟ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ ان کے دلوں میں کفر و نفاق کی بیماری ہےیا انهیں پیغمبركے سچا هونے میں شك هےیا انہیں اندیشہ ہے کہ ان کے پاس مقدمہ لے جائینگے تو ہم پر ظلم كیا جائیگا (حالانكه ان كے هاں كسی پر ظلم کا احتمال ہی نہیں ہے) مگر نہ تو ان کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت میں شک ہے اور نہ ظلم ہی کا خوف ہے جس کی بدولت ان کے پاس مقدمہ لانے سے کترا رہے ہیں بلکہ ظالم (قصور وار) یہ خود ہیں یعنی جس شخص کا ان کے ذمہ حق ہے اس کو دبانا چاہتے ہیں۔ (جامع البیان و فتح) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : دل میں روگ یہ کہ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سچ جانا لیکن حرص نہیں چھوڑتی کہ کہے پر چلیں جیسے بیمارچاہتا ہے کہ چلے اور پائوں نہیں اٹھتے (موضح) اس سے معلوم ہوا کہ جو قاضی کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اس کے سمن کو قبول کرنا واجب ہے اور اس سے کترانا اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ سے منہ موڑنا ہے مگر جو قاضی کتاب و سنت سے بے خبر ہو اور اس نے کسی عالم مجتہد کے آرا واجتہادات کو جمع کرلیا ہو اور اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہو تو اس کے پاس مقدمہ لے جانا اور اس کے سمن کو قبول کرنا ضروری نہیں ہے اس لئے کہ اس رائے پر عمل کرنا اس مجتہد کے لئے جائز تھا جس کی طرف وہ رائے منسوب ہے اور وہ بھی اس وقت تک جب تک اسے کتاب و سنت کا فیصلہ نہ پہنچا تھا مگر کسی دوسرے کے لئے اس پر آنکھیں بند کر کے عمل کرنا اور اس کے مطابق لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے۔ (شوکانی)