وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور تم میں سے فضیلت اور وسعت والے اس بات سے قسم نہ کھالیں کہ قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دیں اور لازم ہے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں، کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمھیں بخشے اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
3۔ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی یا اسے ہوا دی، ان میں ایک شخص مسطح بن اثاثہ تھا جو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خالہ زاد بہن کا بیٹا تھا اور چونکہ غریب اور اللہ کی راہ میں مہاجر تھا اس لئے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس کی کفالت اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ جب اوپر کی آیات میں عائشہ (رض) کی برأت نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے قسم کھالی کہ وہ آئندہ سے اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لی گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اسے سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کہا۔ ” واللہ ہم ضرور چاہتے ہیں کہ اے رب ہمارے تو ہماری خطائوں کو معاف فرما دے“۔ چنانچہ آپ (رح) نے مسطح کی پھر سے مدد کرنا شروع کردی اور فرمایا۔ اللہ کی قسم ! اب میں کبھی اس کی مدد سے ہاتھ نہیں کھینچونگا“۔ فلھذا کان الصدیق ھو الصدیق (رض) و عن بنتہ (ابن کثیر)