لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
(یہ صدقات) ان محتاجوں کے لیے ہیں جو اللہ کے راستے میں روکے گئے ہیں، زمین میں سفر نہیں کرسکتے، ناواقف انھیں سوال سے بچنے کی وجہ سے مال دار سمجھتا ہے، تو انھیں ان کی علامت سے پہچان لے گا، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے، اور تم خیر میں سے جو خرچ کرو گے سو یقیناً اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
ف 2 حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ ان سے مراد اصحاب صفہ ہیں۔ (شوکانی) مگر آیت اپنے عموم کے اعبتار سے ان سب فقرا کو شامل ہے جو مذکورہ صفات کے حامل ہوں اور آیت کا منشا یہ ہے کہ صدقہ وخیرات کے اولین یہ لوگ ہیں یعنی مجاہدین اور علم دین کے طالب علم۔ (ابن کثیر۔ وحیدی) شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ فی زمانہ ماننا جو لوگ علم دین کی نشر واشاعت کے لیے وقف ہوچکے ہیں اگر ان کے پاس کوئی ذریعہ نہ ہو تو ان کی مدد کی جائے۔ (موضح بتصرف) الحافا۔ یعنی وہ لپٹ کر سوال نہیں کرتے جیسا کہ بھکاریوں کی عادت ہے اور یہ عادت بہت بری ہے۔ (رازی۔ وحیدی) یہ جملہ دراصل تعفف (سوال نہ کرنا) کی تفسیر ہی ہے۔ علمائے تفسیر نے اس کے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ وہ بالکل سوا ہی نہیں کرتے (روح) ایک حدیث میں ہے مسکین وہ نہیں ہے جو لقمہ اور دو لقموں کے لیے دربدر پھرتا رہتا ہے بلکہ اصل مسکین وہ ہے جو لوگوں سے لپٹ کو سوال نہیں کرتا۔ نیز احادیث میں نے حاجت سوال کی بڑی مذمت آئی ہے چنانچہ ایک حدیث کے ضمن میں ہے جس کے پاس دوپہر یارات کا کھانا ہے پھر وہ لوگوں سے سوال کرتا ہے تو وہ دوزخ کے انتارے سمیٹتا ہے۔ ( ابو داؤد)