وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ
اور وہ کہ انھوں نے جو کچھ دیا اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں کہ یقیناً وہ اپنے رب ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
13۔ وہاں معلوم نہیں ان کا دیا ہوا صدقہ قبول بھی ہوتا ہے یا نہیں؟۔ ڈرنے کا تعلق اس چیز سے ہے نہ کہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹنے سے مطلب یہ ہے کہ وہ صدقہ اور اسی طرح دوسری تمام عبادات بجا لاتے ہیں لیکن اس پر ناز نہیں کرتے۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا۔ ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شراب پی لے، چوری کرلے، زنا کرلے مگر اللہ سے ڈرتا رہے؟ فرمایا نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی روزہ رکھے، صدقہ کرے نماز پڑھے پھر بھی ڈرتا رہے کہ شاید بارگاہ الٰہی میں قبول نہ ہو اور سلف گناہوں پر جتنا ڈرتے تھے، اس سے زیادہ نیکی کی عدم قبولیت کا اندیشہ ان کو دامن گیر رہتا تھا۔ (قرطبی۔ شوکانی)