سورة البقرة - آیت 265

وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِن لَّمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور اپنے دلوں کو ثابت رکھتے ہوئے خرچ کرتے ہیں، اس باغ کی مثال جیسی ہے جو کسی اونچی جگہ پر ہو، جس پر ایک زوردار بارش برسے تو وہ اپنا پھل دوگنا دے، پس اگر اس پر زور کی بارش نہ برسے تو کچھ شبنم۔ اور اللہ جو کچھ تم کر رہے ہو اسے خوب دیکھنے والا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 5 یہ ریاکاروں کے مقابلہ میں مخلص مومنوں کی دوسری مثال ہے یعنی جو لوگ محض اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے خرچ کرتے ہیں اور دل کے اس اطمینان کے ساتھ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس کا وافر اجر عطا فرمائے گا اور ان کا عمل ضائع نہیں ہوگا۔ (کبیر) ان کے خرچ کرنے کی مثال اس باغ کی ہے جو کسی پر فضا اور بلند مقام پر ہو اگر اس پر زور کی بارش ہو تو وہ دوسرے باغوں سے دگنا پھل دے اور اگر زور کی بارش ہو تو ہلکی بارش ہی کا فی رہے۔ یہی حالت مومن کے عمل کی ہے وہ کسی صورت بھی ضائع نہ ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزادے گا۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں : زور کے مینہ سے مراد زیادہ مال خرچ کرنا ہے اور طل (اوس) سے مراد تھوڑا مال۔ سو اگر نیت درست ہے تو بہت خرچ کرنا بہت ثواب اور تھوڑا بھی کام آتا ہے جیسے خالص زمین پر باغ ہے جتنا مینہ برسے گا اس کا فائدہ ہے بلکہ اوس بھی کافی ہے۔ اور نیت درست نہیں تو جس قدر زیادہ خرچ کرے ضائع ہے کیونکہ زیادہ مال دینے میں دکھا وابھی زیادہ ہے جیسے پتھر پردانہ، جتنا زور کا مینہ برسے اور ضرر دے کہ مٹی دو ھوئی جائے (موضح)