سورة المؤمنون - آیت 18

وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ کچھ پانی اتارا، پھر اسے زمین میں ٹھہرایا اور یقیناً ہم اسے کسی بھی طرح لے جانے پر ضرور قادر ہیں۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

4۔ اندازہ سے مراد وہ اندازہ ہے جو جانداروں، کھیتوں اور پھلوں وغیرہ کے لئے سازگار ہے نہ ان کی ضرورت سے زیادہ اور نہ کم اور پھر برساتی نالوں اور دریائوں کے اندر زرخیز مٹی بہ کر آجاتی ہے جو زراعت کے لئے مفید ہوتی ہے۔ (ابن کثیر) 5۔ مراد وہ پانی ہے جو تالابوں اور جوہڑوں کی شکل میں زمین کی سطح پر ٹھہر جاتا ہے اور اسے لوگ آبپاشی، اپنے پینے، جانوروں کو پلانے اور دیگر ضرورتوں کے لئے استعمال میں لاتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ (ابن کثیر) 6۔ بخارات بن کر اڑ جائے یا زمین میں جذب ہوجائے۔ جیسے دوسری آیت میں فرمایا : قل ارأیتم ان اصبح ماء کم غورا فمن یاتیکم بماء معین۔ کہہ دیجئے ! کیا تم نے غور کیا کہ اگر تمہارا پانی زمین میں اتر جائے تو کون تمہیں عمدہ صاف شفاف پانی لا کر دے گا۔ (ملک :3)