ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ
پھر ہم نے اس قطرے کو ایک جما ہوا خون بنایا، پھر ہم نے اس جمے ہوئے خون کو ایک بوٹی بنایا، پھر ہم نے اس بوٹی کو ہڈیاں بنایا، پھر ہم نے ان ہڈیوں کو کچھ گوشت پہنایا، پھر ہم نے اسے ایک اور صورت میں پیدا کردیا، سو بہت برکت والا ہے اللہ جو پیدا کرنے والوں میں سب سے اچھا ہے۔
ف10۔ یعنی روح پھونکتے ہیں تو اس میں حرکت و اضطراب، سمع اور بصر (بینائی) پیدا ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح گویا اس کی صورت ہی بدل جاتی ہے جس کو پہلی صورت سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ اسی طرح موت تک جتنے اطوار و احوال انسان پر آتے ہیں سب کو ” خَلۡقًا ءَاخَرَ“ کا مفہوم شامل ہے۔ (ابن کثیر)۔