لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
دین میں کوئی زبردستی نہیں، بلاشبہ ہدایت گمراہی سے صاف واضح ہوچکی، پھر جو کوئی باطل معبود کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو یقیناً اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا، جسے کسی صورت ٹوٹنا نہیں اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
ف 2 حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ سے منقول ہے کہ جاہلیت میں انصار مدینہ کے بعض لڑکے مختلف اسباب کے تحت یہو دی یا عیسائی ہوگئے تھے ان کے والدین مسلمان ہوئے تو انہوں زبر دستی ان کو دائرہ اسلام میں لانا چاہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ گو نزول خاص ہے مگر حکم عام ہے۔ (ابن کثیر) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ اسلام میں جہاد زبر دستی منوانے کا نام جہاد ہے۔ (موضح بتصرف)