وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور ان سے ان کے نبی نے کہا بے شک اللہ نے تمھارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ انھوں نے کہا اس کی حکومت ہم پر کیسے ہو سکتی ہے، جبکہ ہم حکومت کے اس سے زیادہ حق دار ہیں اور اسے مال کی کوئی وسعت بھی نہیں دی گئی؟ فرمایا بے شک اللہ نے اسے تم پر چن لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخی عطا فرمائی ہے اور اللہ اپنی حکومت جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
ف 2 اس لیے کہ بنی اسرائیل میں نبوت تولادی کی نسل میں چلی آرہی تھی اور بادشاہی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بڑے بیٹے یہودا کی نسل میں اور طالوت اس نسل سے نہ تھے بلکہ وہ ایک معمولی قسم کے فوجی تھے۔ اس پر بنی اسرائیل کے سرداروں نے اعتراض کیا۔ بائیبل نے طالوت کا نام ساؤل مذکور ہے اور لکھا ہے کہ وہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سب سے چھوٹے بیٹے بنیامین کی نسل سے تھے اور بنی اسرائیل میں ان جیسا خوبصورت اور قد آور کوئی شخص نہ تھا۔ ف 3 یعنی طالوت کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔ یہ علمی قابلیت اور جسمانی صلاحیتوں کی وجہ سے تم پر فائق ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو موروثی طوپر بادشاہی کا حق نہیں ہے اور یہ کہ خلیفہ کا مالدار گھرانے سے ہونا بھی شرط نہیں ہے ہاں علم و فضل کے علاوہ فوجی صلاحتیوں کا مالک ہونا ضروری ہے تاکہ ملک کا دفاع کرسکے۔