سورة البقرة - آیت 247

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ان سے ان کے نبی نے کہا بے شک اللہ نے تمھارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ انھوں نے کہا اس کی حکومت ہم پر کیسے ہو سکتی ہے، جبکہ ہم حکومت کے اس سے زیادہ حق دار ہیں اور اسے مال کی کوئی وسعت بھی نہیں دی گئی؟ فرمایا بے شک اللہ نے اسے تم پر چن لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخی عطا فرمائی ہے اور اللہ اپنی حکومت جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 بایئبل میں اس نبی کا نام سموئیل (شموئیل) لکھا ہے جن کا زمانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے تقریبا ایک ہزار سال بیشتر کا ہے۔ قدیم مفسرین نے اس واقعہ کی تفصیل میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کچھ عرصہ توبنی اسرائیل کا کام ٹھیک چلتا رہا پھر ان میں بدعات نے راہ پالی حتی کہ بعض لوگ بتوں کی پوجا کرنے لگے تب اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کردیا۔ جنہوں نے جالوگ بادشاہ کی سردکردگی میں ان کے بہت سے علاقے چھین لیے اور لاتعداد افراد کو غلام بنا لیا وہ لوگ بھاگ کر بیت المقد میں جمع ہوئے اور اپنے نبی حضرت شمو ئیل (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیجئے تاکہ اس کے زیر کمان ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرسکیں۔ شمو ئیل (علیہ السلام) نے انہیں اس بے جا مطالبہ سے باز رکھنے کی کو شش کی مگر وہ اس پر سختی سے مصر رہے چنانچہ حضرت شموئیل (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے طالوت کا انتخاب کردیا مگر وہ لوگ اس پر اعتراض کرنے لگے۔ (ابن کثیر۔ اقرطبی) ف 2 اس لیے کہ بنی اسرائیل میں نبوت تولادی کی نسل میں چلی آرہی تھی اور بادشاہی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بڑے بیٹے یہودا کی نسل میں اور طالوت اس نسل سے نہ تھے بلکہ وہ ایک معمولی قسم کے فوجی تھے۔ اس پر بنی اسرائیل کے سرداروں نے اعتراض کیا۔ بائیبل نے طالوت کا نام ساؤل مذکور ہے اور لکھا ہے کہ وہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سب سے چھوٹے بیٹے بن یامین کی نسل سے تھے اور بنی اسرائیل میں ان جیسا خوبصورت اور قد آور کوئی شخص نہ تھا۔ ف 3 یعنی طالوت کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔ یہ علمی قابلیت اور جسمانی صلاحتیں کی وجہ سے تم پر فائق ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو موروثی طوپر بادشاہی کا حق نہیں ہے اور یہ کہ خلیفہ کا مالدار گھرانے سے ہونا بھی شرط نہیں ہے ہاں علم و فضل کے علاوہ فوجی صلاحتیوں کا مالک ہونا ضروری ہے تاکہ ملک کا دفاع کرسکے۔