وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اور اگر تم انھیں اس سے پہلے طلاق دے دو کہ انھیں ہاتھ لگاؤ، اس حال میں کہ تم ان کے لیے کوئی مہر مقرر کرچکے ہو تو تم نے جو مہر مقرر کیا ہے اس کا نصف (لازم) ہے، مگر یہ کہ وہ معاف کردیں، یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے اور یہ (بات) کہ تم معاف کر دو تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور آپس میں احسان کرنا نہ بھولو، بے شک اللہ اس کو جو تم کر رہے ہو، خوب دیکھنے والا ہے۔
ف 6 یہ دسری صورت ہے کہ مہر مقرر کیا جا چکا ہو اور شو ہر نے قبل از مسیس (مجامعت یا خلوت صحیحہ) طلاق دے دی اس صورت میں عورت نصف مہر کی حقدار ہوگی ہاں اگر وہ عورت خود یا اس کے اولیا معاف کردیں تو دوسری بات ہے بعض نے پیدہ عقدہ النکاح سے شوہر مراد لیا ہے اور اس کی طرح عفویہ ہے کہ وہ اپنی خوشی سے پورا مہر دینا چاہے تو دے سکتا ہے اور پھر، ان تعفوا اقرب اللتقوی فرمایا شوہر کی تر غیب دی ہے کہ پورا مہر دے دینا ہی اقرب الی التقوی ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) مسئلہ اگر اس صورت میں شوہر قبل از مسیس وفات پاجائے توبیوی پورے مہر کی حقدار ہوگی اسے ورثہ بھی ملے گا اور پر عدت بھی ہوگی جیسا کہ بروع بنت واشق کی حدیث میں ہے۔ (شوکانی) واضح رہے کہ مطلقہ عورت کی دو قسمیں اور ہیں (1) مہر مقرر ہوچکا تھا اور خاوند نے بعد ازمسیس طلاق دے دی۔ دیکھئے آیت 229۔ (2) عقد کے وقت مہر مقرر نہ تھا مگر بعد ازمسیس طلاق دی اس صورت میں عورت مہر مشل کی حقدار ہوگی یعنی جتنا مہر عموما اس کے خااندان کی عورتوں کا مقرر ہوتا ہے اس کے مطابق اسے مہر دلوایا جائے گا جیسا کہ سورت نسا آیت 24 کے تحت مذکور ہوگا۔ (شوکانی)