قَالَ بَلْ أَلْقُوا ۖ فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ
کہا بلکہ تم پھینکو، تو اچانک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں، اس کے خیال میں ڈالا جاتا تھا، ان کے جادو کی وجہ سے کہ واقعی وہ دوڑ رہی ہیں۔
ف 7 یعنی ان کے جادو کا رعب عوام پر ہی نہیں ہوا تھا بلکہ حضرت موسیٰ بھی اگر حقیقت حال سے واقف نہ ہوتے تو ان کے جادو سے متاثر ہوجاتے یہ مطلب نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ بھی متاثر ہوگئے تھے۔ یوں بعض دنیوی امور کے سرانجام دینے میں نبی پر بھی جادو کا اثر ہوسکتا ہیجیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت پر بھی مدینہ میں آ کر کچھ عرصہ کے لئے جادو کا اثر ہوگیا تھا مگر اس قسم کے حق و باطل کے معرکہ میں یہ ممکن نہیں کہ ایک نبی پر اس قسم کا اثر ظاہر ہوجائے۔ ” جادو سے معلوم ہوا“ کا مطلب یہ ہے کہ صرف بظاہر دکھائی دیا حقیقت میں شعبدہ سے زیادہ کچھ نہیں تھا اور یہی جادو اور معجزہ میں فرق ہے کہ جادو سے ایک چیز کی حقیقت نہیں بدلتی۔ بظاہر آنکھوں پر اثر ہوتا ہے اور معجزہ سے ایک چیز کی حقیقت تک بدل جاتی ہے۔ (کبیر )