فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا
تو ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے ہاں سے ایک رحمت عطا کی اور اسے اپنے پاس سے ایک علم سکھایا تھا۔
ف 3 عبداً من عبادناً کے نام میں اختلاف ہے بعض نے ان کا نام ” الیسع“ اور بعض نے ” الیاس نقل کیا ہے مگر جمہور مفسرین نے ان کا نام خضر ہی بتایا ہے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے پھر اس میں بھی اختلاف ہے کہ ان کو خضر کیوں کہا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ سفید زمین پر بیٹھے تو وہ جگہ سرسبز ہو کر لہلہانے لگی اس سے ان کا لقب خضر مشہور ہوگیا۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ایک حدیث سے بھی ثابت ہے۔ امام نووی لکھتے ہیں والصواب الاول یعنی یہی وجلقب درست ہے۔ (روح شوکانی) ف 4 جمہور علما کے نزدیک یہاں رحمت سے مراد وحی اور نبوت ہے اور قرآن میں متعدد مواضع پر یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جمہور مفسرین کے نزدیک حضرت خضر نبی تھے جس کی شہادت متعدد روایات سے بھی ملتی ہے۔ جمہور بہ مشائخ اور صوفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ اب بھی زندہ ہیں اور اس سلسلہ میں زیادہ تر کہا وات اور بعض واقعات سے تائید حاصل کی گی ورنہ ان کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔ دوسری طرف محققین علما … جن میں امام بخاری ابن تیمیمہ اور حافظ ابن حجر جیسے اکبار بھی شامل ہیں … کی رائے یہ ہے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔ حافظ ابن القیم فرماتے ہیں کہ ان کے اب تک زندہ رہنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے بلکہ جن احادیث میں ان کی زندگی کا ذکر ہے وہ سب کی سب جھوٹی ہیں۔ امام بخاری سے حضرت الیاس اور خضر کے بارے میں سوال کیا گیا کہ وہ اب بھی زندہ ہیں؟ امام بخاری نے فرمایا یہ کیسے ہوسکتا ہے جب کہ آنحضرت نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے فرما دیا، لایبقی علی راس المائۃ ممن کو الیوم علی ظھر الارض احد کہ آج روئے زمین پر جتنے بھی رہنے والے ہیں ایک سو سال کے بعد ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا۔ اور صحیح مسلم میں امن نفس منفویۃ الا ہے اور علی ظھر الارض کے الفاظ نہیں ہیں جن میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں۔ حافظ ابن الصلاح نے لکھا ہے کہ خضر آج بھی زندہ ہیں اور بات مجمہور علما کی طرف منسوب کیا ہے مگر یہ کوئی دلیل نہیں ہے۔ الغرض صحیح رائے محمد ثین کی ہے کہ وہ اب زندہ نہیں ہیں۔ قوسی زادہ نے روح المعانی میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور طرفین کے دلائل بھی ذکر کئے ہیں۔ ف 5 یعنی اوسطہ وحی کے ہم نے ان کو تعلیم دی۔ عام اس سے کہ وہ وحی ظاہری ہو یعنی فرشتے کی زبن سے سخی ہو یا اشارہ اور الہام کے طور پر حاصل کی ہو جسے حدیث میں نفث فی الروع“ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس آیت سے صوفیہ نے علم امدنی کا ثبوت پیش کیا ہے اور شریعت کے علم کو علم ظاہر قرار دے کر اس کو علم باطنی کا درجہ دیا ہے حتیٰ کہ بعض نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ علم باطن کے احکام علم شریعت اور ظاہر کے خلاف ہوتے ہیں مگر محقین صوفیہ نے اس کا انکار کیا ہے اور لکھا ہے علم تصوف کا زہد و تو نتیجہ یہ کتاب و سنت پر عمل کا شریعت کے مخلاف کیسے ہو سکتے ہیں اور مخلوق کو جو علم بھی حاصل ہوا ہے وہ علم ظاہرہی ہے ورنہ علم باطن تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے۔