وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، وہ جنوں میں سے تھا، سو اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی، تو کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر دوست بناتے ہو، حالانکہ وہ تمھارے دشمن ہیں، وہ (شیطان) ظالموں کے لیے بطور بدل برا ہے۔
ف 9 اس سلسلہ کلام میں قصہ آدم و ابلیس کے ذکر کرنے سے مقصود کفار مکہ کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ تم جس غرور تکبر کی راہ پر چل رہے ہو اور فقراء و مسلمین کو حقیر سمجھتے ہو۔ یہی وہی راہ ہے جس پر تم سے پہلے شیطا ننے قدم رکھا تھا پھر دیکھ لو کہ اس کا انجام کیا ہوا۔ (کبیر) ف 1 یعنی وہ فرشتوں میں سے نہیں تھا، جنوں میں تھا، اسی لئے اس نے اپنے مالک کی نافرمانی کی ففسق میں فاء تعلیلیہ ہے۔ (کبیر) اگر وہ فرشتوں میں سے ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرتا۔ کیونکہ فرشتے تو اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ (تحریم :6)