قُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا ۖ لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ ۚ مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا
کہہ دے اللہ زیادہ جاننے والا ہے جتنی مدت وہ رہے، اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی باتیں ہیں، وہ کس قدر دیکھنے والا اور کس قدر سننے والا ہے، نہ اس کے سوا ان کا کوئی مددگار ہے اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے۔
ف 6 یعنی اگر اہل کتاب آپ سے اس مدت کے بارے میں اختلاف کریں تو آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کا علم تم سے زیادہ ہے لہٰذا جو مدت اس نے بتائی ہے وہی صحیح ہے تمہاری کسی بات کا اعتبار نہیں۔ ان دو آیات کی یہ تفسیر جمہور مفسرین کے بیان کے مطابق ہے۔ قتادہ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا قول نقل رفمایا ہے جو کہتے تھے کہ اصحاب کہف تین سو سال تک سوتے رہے اور بعض اس پر نو سال کا اضافہ کرتے تھے اور اس آیت میں یہ فرما کر کہ ’ د کہہ دیجیے کہ اللہ خوب جانتا ہے وہ کتنی مدت (سوتے) رہے عین کے اس قول کی تردید فرمائی ہے واللہ علم (ابن کثیر) ف 7 یعنی اصحاب کہف کے بارے میں جو بات آپ کو اس کتاب میں بتائی جا رہی ہے وہ بالکل کافی اور جامع و مانع ہے۔ آپ اسی کو جوں تاتوں لوگوں کو پڑھ کر سناتے رہیے یا یہ کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب ہے یہی ان کو پڑھ کر سنائیں اور ان کی مخلافت کی پرواہ نہ کریں۔ (روح)