سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ ۖ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا
عنقریب وہ کہیں گے تین ہیں، ان کا چوتھا ان کا کتا ہے اور کہیں گے پانچ ہیں، ان کا چھٹا ان کا کتا ہے، بن دیکھے پتھر پھینکتے ہوئے اور کہیں گے سات ہیں، ان کا آٹھواں ان کا کتا ہے۔ کہہ دے میرا رب ان کی تعداد سے زیادہ واقف ہے، انھیں بہت تھوڑے لوگوں کے سوا کوئی نہیں جانتا، سو تو ان کے بارے میں سرسری بحث کے سوابحث نہ کر اور ان لوگوں میں سے کسی سے ان کے بارے میں فیصلہ طلب نہ کر۔
ف 12 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے وقت اہل کتاب میں اور ان کے ذریعے مشرکین عرب میں اصحاب کہف کے متعلق طرح طرح افسانے موجود تھے مگر مستند معلومات کسی کے پاس نہ تھی۔ فائدہ اصحاب کہف کے اسما کے بارے میں کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے۔ ناموں کی صراحت غالباً اسرائیلی تاریخوں سے ماخوذ ہے اور ان اسماء کے تلفظ میں بھی بہت اختلاف ہے اور کسی قول پر بھی اعتماد نہیں ہو سکتا۔ (فتح الباری) پھر بعض لوگ ان ناموں کے خواص و منافع بیان کرتے ہیں اور مختلف بیماریوں کے لئے ان کو لکھتے ہیں جو کسی صورت بھی صحیح نہیں بلکہ اگر یا حرف ندا کے ساتھ لکھے جائیں تو صاف شرک ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس بارے میں بعض روایات بھی گھڑ لی گئی ہیں جو ابن عباس اور بعض دیگر اصحاب کی طرف منسوب ہیں مگر ان میں سے کوئی روایت بھی حضرت ابن عباس اور سلف صالح سے ثابت نہیں ہے : (و لعلہ شیء اختر والمتزیون بندی المشائخ لاخذ البداھم من النساء و مخفہ (القول) (روح) نواب صدیق حسن خان نے اپنی تفسیر میں ان ناموں کے ذریعے علاج کی تردید کی ہے۔ (وحیدی) ف 13 کہ وہ کسی قسم کے لوگ تھے ان کے نام کیا تھے یا ان کی تعداد کیا تھی؟ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں ان قلیل لوگوں میں سے ہوں جو ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں وہ تعداد میں سات تھے۔ (ابن کثیر) ف 1 یعنی جتنا غصہ ہم آپ پر وحی کر رہے ہیں اتنا انہیں سنا دیں اس سے زیادہ کسی بحث و مناظرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ ف 2 اس لئے کہ ان کے پاس کوئی صحیح اور مستند معلومات نہیں ہے۔ صرف سنے سنائے یا اٹکل پچو افسانے ہیں۔