وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا
اور ہمیں کسی چیز نے نہیں روکا کہ ہم نشانیاں دے کر بھیجیں مگر اس بات نے کہ پہلے لوگوں نے انھیں جھٹلادیا اور ہم نے ثمود کو اونٹنی واضح نشانی کے طور پر دی تو انھوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم نشانیاں دے کر نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کے لیے۔
ف 4 مفسرین کا بیان ہے کہ اہل مکہ نے آنحضرتﷺ سے فرمائش کی کہ صفا پہاڑی سونے کی بنا دی جائے اور مکہ کے گرد جو پہاڑ ہیں انہیں سرکا دیا جائے۔ حضرت جبریل آئے اور کہنے لگے ” اگر آپ چاہیں تو ان کی فرمائش پوری کردی جائے لیکن یہ پھر بھی ایمان نہ لائے تو انہیں کوئی مہلت نہ دی جائے گی اور اگر آپ چاہیں تو ان کی فرمائش پوری نہ کی جائے اور انہیں مہلت دی جائے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر) مطلب یہ ہے کہ ہم جو ان لوگوں کی فرمائش پر نشانیاں نہیں بھیج رہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے پہلے لوگوں کے پاس جب ایسی نشانیاں آئیں اور انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے اپنی سنت کے مطابق ان پر عذاب نازل کردیا۔ چنانچہ قوم ثمود کی مثال ان کے سامنے موجود ہے۔ اس طرح اگر یہ بھی چاہتے ہیں تو ہم ان کی فرمائش پوری کرسکتے ہیں مگر اس کے بعد انہیں مہلت نہیں ملے گی۔ جیسا کہ سورۃ انعام وغیرہ میں گزر چکا ہے۔ (ابن کثیر) ف 5 یعنی اسے ستایا اور آخر کار اسے مار ڈالا۔ پھر دیکھ لو ان کا کیا حشر ہوا؟ ف 6 یعنی عذاب سے ڈرانے کے لئے کیونکہ اگر وہ نہیں ڈرینگے تو ان پر عذاب نازل ہوجائے گا۔