وَإِن مِّن قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا
اور کوئی بھی بستی نہیں مگر ہم قیامت کے دن سے پہلے اسے ہلاک کرنے والے ہیں، یا اسے عذاب دینے والے ہیں، بہت سخت عذاب۔ یہ (بات) ہمیشہ سے کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔
ف 2 تباہ کرنے سے مراد بالکل غارت کردیتا اور عذاب اتارنے سے مراد قحط بیماری یا جنگ وغیرہ میں مبتلا کرنا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک ” قریہ“ سے مراد ہر بستی ہے یعنی مومنوں کی ہو یا کافروں کی، اور ” اہلاک“ سے مراد طبعی ویرانی اور ” تعذیب“ سے کسی آفت وغیرہ میں مبتلا کرنا ہے اور ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ روئے زمین کی کوئی ایسی بستی نہیں جسے ہم قیامت سے پہلے پہلے یا تو طبعی موت بھیج کر ویران نہ کردیں یا کسی سخت آفت میں مبتلا نہ کردیں۔ بہرحال دونوں میں سے کوئی مطلب لیا جائے۔ مقصود کفار مکہ کو ڈرانا ہے کہ خواہ تم ہر طرح امن سے رہتے ہو مگر ایک نہ ایک دن تمہاری گرفت ہوگی۔ اس آیت میں ان نشانیوں کی طرف اشارہ ہے جو قیامت سے پہلے رونما ہونے والی ہیں۔ (ماخوذ از روح و شوکانی) ف 3 یعنی ہماری حتمی اور اٹل فیصلہ ہے جسے کوئی طاقت نافذ ہونے سے نہیں رو سکتی۔