مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا
جس نے ہدایت پائی تو وہ اپنی ہی جان کے لیے ہدایت پاتا ہے اور جو گمراہ ہوا تو اسی پر گمراہ ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری (جان) کا بوجھ نہیں اٹھاتی اور ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں، یہاں تک کہ کوئی پیغام پہنچانے والا بھیجیں۔
ف 1 مطلب یہ ہے کہ جو شخص اچھے عمل کرتا ہے وہ کسی پر احسان نہیں کرتا بلکہ اس کا فائدہ اس کو پہنچتا ہے اور اگر برے عمل کرتا ہے تو ان کا بوجھ بھی اسی پر ہوگا۔ ف 2 یعنی دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا بلکہ وہ اسے خود ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ سورۃ نحل اور عنکبوت میں جو یہ آیا ہے کہ وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور ان کے بھی جن کو بغیر علم کے گمراہ کرتے رہے ہیں۔“ تو یہ دراصل دوسروں کا بوجھ نہیں ہے بلکہ دوسروں کو گمراہ کرنے کی وجہ سے خود ان کا اپنا بوجھ ہے۔ (نیز دیکھیے نحل :25 عنکبوت :13) ف 3 جو ان تک اللہ کے احکام پہنچا دے اورا تمام حجت ہوجائے۔ جمہور علمائے تفسیر نے اسے عذاب دنیوی پر محمول کیا اور مراد عذاب اخروی بھی ہوسکتا ہے۔ (قرطبی) اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین کی چھوٹی اولاد معذب نہ ہوگی بلکہ حدیث (كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ)(کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنت میں جائے گی بعض دوسری روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور حدیث(هُمْ مِنْ آبَائِهِمْ) کہ وہ اپنے آباء کے تابع ہوں گے پہلی حدیث یعنی كُلُّ مَوْلُودٍ کے معارض نہیں ہے۔ کیونکہ یہ آپ نے اس وقت فرمایا تھا جب آپ کو ان کے جنتی ہونے کا علم نہ تھا۔ (ماخوذ ابن کثیرو رازی)