سورة البقرة - آیت 188

وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ اور نہ انھیں حاکموں کی طرف لے جاؤ، تاکہ لوگوں کے مالوں میں سے ایک حصہ گناہ کے ساتھ کھا جاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3 جو مال بھی جائز طریقے سے حاصل کیا جائے خواہ مالک کی راضامندی بھی شامل ہو تو وہ باطل (ناحق) طرق سے کھانا ہے۔ مثلا زنا کی اجرت نجومی کی فیس۔ شراب کی فروخت۔ لاٹری یا جوئے کے ذریعہ کمائی یا گانے بجانے اجرت۔ العرض تمام ناجائزومسائل اکل بالبابل کے تحت آجاتے ہیں۔ اسی طرح رشوت دیکر یا حکام کے سامنے جھوٹی گواہیاں پیش کر کے کسی کے مال پر قانونی تصرف حاصل کرلینا بھی حرام ہے محض حاکم کے فیصلہ سے کوئی حرام مال حلال نہیں ہوجاتا۔ حضرت ام سلمہ (رض) سے ررایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر کسی فریق کے دلائل سن میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں تو میرے فیصلہ سے ایک کے لیے دوسرے کا مال حلال نہیں ہوجائے گا۔ اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ اس نے آگ کا ایک ٹکڑا حاصل کیا ہے۔ بخاری ومسلم) اس حدیث سے معلم ہوا کہ ظاہری بیانات کی بنا پر ناحق فیصلہ سے حرام چیز حلال نہیں ہوجاتی۔ صحابہ، تابعین اور ائمہ کرام یہی مذہب ہے۔ امام ابو حنیفہ سے ایک قول اس کے خلاف بیان کیا جاتا ہے۔ _(قرطبی)