وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو ایک بجنے والی مٹی سے پیدا کیا، جو بدبودار، سیاہ کیچڑ سے تھی۔
ف 7۔ اس سورۃ میں آیت : ’ ولقد جعلنا فی السماء برزجا الک“ سے دلائل توحید کا بیان چلا آرہا ہے۔ جب اوپرکی آیت میں حیوانات کی تخلیق کو بطور دلیل ذکر کیا تو اب انسان کے پیدا کئے جانے کو بطور دلیل ذکر کیا جا رہا ہے۔ الغرض دلائل توحید میں یہ ساتویں قسم دلیل کی ہے۔ (کبیر)۔ عربی زبان میں خشک مٹی کو تراب کہتے ہیں جب اسے بھگو دیا جائے تو وہ سین کہلاتی ہے پھر جب خوب گوندھ دینے کے بعد اس میں سے بو آنے لگے تو اسے ” حماء مسنون“ کہا جاتا ہے۔ پھر تب خشک ہو کر کھن کھن بولنے لگے تو وہ صلصال کہلاتی ہے اور اسے جب آگے میں پکا دیا جائے تو فخار کہتے ہیں۔ آیت میں الفاظ کی ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہوئے گار سے حضرت آدم ( علیہ السلام) کا پتلا تیار کیا گیا ہوگا پھر جب وہ سوکھ کر کھن کھن بولنے لگا تو اسمیں روح پھونکی گئی ہوگی۔ (کبیر)۔ یہی مضمون ایک مرفوع حدیث سے بھی ثابت ہے۔ (ترمذی)۔