سورة البقرة - آیت 168

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے لوگو! ان چیزوں میں سے جو زمین میں ہیں حلال، پاکیزہ کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو، بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 5 سورت بقرہ میں یا یھا الناس کے لفظ کے ساتھ خطاب یہاں دوسری مرتبہ کیا گیا ہے۔ اوپر کی آتیوں میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو انداد بنانے سے تحذیر کا ذکر چلا آرہا ہے۔، مشرکین ان انداد کی تعظیم وتکریم میں اسقدر غلو کرتے کہ عبادت ودعا میں بھی انہی کو پکارتے اور ان کے نام پر بہت سے مویشی بھی حرام قرار دے دیتے۔ ان پر نہ سواری کرتے اور نہ ان کا گوشت کھاتے ان کو تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھتے۔ سورۃ انعام 138۔139) چنانچہ اس آیت میں اس قسم کی تحریمات سے منع فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ حلال اور طیب چیزیں کھانے کا حکم دیا۔ صحیح مسلم میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ جو مال بھی میں نے اپنے بندوں کو بخشا ہے وہ اس کے لیے حلال اور طیب ہے مگر شیاطین ان کو گمراہ کردیتے ہیں اور وہ حلال چیزوں کو حرام ٹھہرا لیتے ہیں چنانچہ یہاں بھی فرمایا کہ شیطان کی اتباع کر کے ان کو حرام نہ ٹھہراؤ۔ سنن اور شرئع کے ماسوا معصیت۔ خطم الشیطان میں داخل۔ حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور میں یہ آیت تلاوت کی گئی تو سعد بن ابی وقاص نے عرض کیا، اللہ کے رسول ! دعا فرمایئے کہ میں مستجاب الدعوہ بن جاؤں۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ حلال اور طیب کھاؤ تو تمہاری دعاقبول ہوگی۔ (ابن کثیر) یعنی شیطان ایک طرف تو معاشرے میں اخلاقی برائیوں ( سؤ فحشاء) کو فروغ دیتے ہیں اودوسری طرف دین میں بدعات پیدا کر کے لوگوں کے عقائد و اعمال خراب کرتے ہیں۔ ہر وہ بات جو کتاب وسنت ثابت نہ ہو وہ ان تقو لو اعلی اللہ تعلمون میں داخل ہے بیان کے لیے دیکھئے سورت اعراف۔ آیت 28) ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ السؤ اس برائی کو کہتے ہیں جس میں کوئی جک حد شرعی معین نہ ہو اور فحشا وہ برائی ہے جس کے ارتکاب پر حد معتین ہو۔ (قرطبی)