أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۗ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ۗ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
تو کیا وہ جو ہر جان پر اس کا نگران ہے جو اس نے کمایا (کوئی دوسرا اس کے برابر ہوسکتا ہے؟) اور انھوں نے اللہ کے کچھ شریک بنا لیے۔ کہہ دے ان کے نام لو، یا کیا تم اسے اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ زمین میں نہیں جانتا، یا ظاہری بات سے (کہہ رہے ہو؟) بلکہ ان لوگوں کے لیے جنھوں نے کفر کیا، ان کا مکر خوشنما بنا دیا گیا اور وہ سیدھے راستے سے روک دیے گئے اور جسے اللہ گمراہ کر دے پھر اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
ف 1۔ کیا وہ تمہارے جھوٹے معبودوں کی طرح ہے جو کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان؟ اتنی عبارت محذوف ہے۔ ف 2۔ حالانکہ سے زمین کے چپے چپے کی خبریہ۔ تو اگر ان شرکاء کا کہیں وجود ہوتا تو وہ انہیں ضرورجانتا۔ اس تفسیر کی رو سے یعلم میں ھو کی ضمیر اللہ تعالیٰ کے لئے ہوگی۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” لایعلم“ میں ضمیر ” ما“ کے لئے ہو اور مطلب یہ ہو کہ کیا اللہ تعالیٰ کو ان بے جان بتوں کے معبود ہونے کی خبر دیتے ہو جن کو ذرہ بھر بھی علم نہیں ہے۔ صاحب روح للمعانی لکھتے ہیں ” اس سے مقصود تو زمین و آسمان میں اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی نفی کرنا ہے لہٰذا ” فی الارض“ کی قید محض اس لئے لگائی ہے کہ کفار اپنے بتوں کے ” اللھم الارض“ کی قید محض اس لئے لگائی ہے کہ کفار اپنے بتوں کے ” الھۃ الارض“ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ (ازروح۔ ابن کثیر)۔ ف 3۔ جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ مراد ہے ان کا اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دینا۔ ف 4۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی قسمت میں ہدایت نہیں لکھی۔