وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا ۖ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور ندیاں بنائیں اور اس میں تمام پھلوں میں سے ایک ایک جوڑا دو دو قسم کا بنایا، وہ رات کو دن پر اوڑھا دیتا ہے، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔
ف 6۔ اوپر عالم علوی کا تذکرہ فرمایا۔ اب یہاں عالم سفلی میں اپنی قدرت و حکمت کے دلائل بیان فرمائے (ابن کثیر)۔ دریائوں کے بننے اور بہنے کا سبب پہاڑ ہی ہیں اس لئے دونوں کا ایک ساتھ ذکر فرمادیا۔ (روح)۔ ف 7۔ جیسا کہ نباتات سے متعلق جدید تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ ہر قسم کے درختوں میں نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ یوں جوڑ بااعتبار کم و کیف اور طعم و لون بھی مراد ہوسکتا ہے مثلا گرم و سرد، چھوٹا و بڑا سیاہ و سفید کٹھا و میٹھا وغیرہ ذالک۔ (روح)۔ ف 8۔ یعنی ایک دوسرے کی جگہ آتے رہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ زمان و مکان پر ہر قسم کا تصرف اللہ تعالیٰ کے قبضۃ قدرت میں ہے۔ ف 9۔ موضح میں ہے۔ رنگا رنگ چیزیں بنانا نشان ہے کہ اپنی خوشی سے بنایا۔ اگر ہر چیز خاصیت سیہوتی تو ایک سی ہوتی۔ امام رازی (رح) لکھتے ہیں قرآن میں جہاں عالم فسلی کے دلائل ذکر فرمائے ہیں۔ اس کے آخر میں ان فی ذلک لایات لقوم یتفکرون۔ یا اس کے ہم معنی جملہ لایا گیا ہے جس سے اشارہ ہے کہ ان چیزوں پر غوروفکر سے نتیجہ نکل سکتا ہے کہ یہ ااختلاف طبعی اسباب کے تحت نہیں ہے۔ (کبیر)۔