حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ
یہاں تک کہ جب رسول بالکل ناامید ہوگئے اور انھوں نے گمان کیا کہ بے شک ان سے یقیناً جھوٹ کہا گیا تھا تو ان کے پاس ہماری مدد آگئی، پھر جسے ہم چاہتے تھے وہ بچا لیا گیا اور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے ہٹایا نہیں جاتا۔
ف 4۔ یعنی اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے۔ (روح)۔ ف 5۔ جو انہیں خدا کے عذاب سے ڈراتے ہیں۔ حالانکہ عذاب ہرگز آنے والا نہیں ہے۔ اگر آنا ہوتا تو کبھی کا آچکا ہوتا۔ آیت کا یہ مطلب اس صورت میں ہے جب ” ظَنُّوٓاْ “ (سمجھنے لگے) کا فاعل قوم کےلوگوںکو قرار دیا جائے اور اگر اس کا فاعل خود پیغمبروں کو قرار دیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جب پیغمبر مایوس ہوگئے اور ان کے دل میں یہ وسوسہ آنے لگا کہ عذاب یا مدد دنیا میں نہیں آئے گی یعنی لاچاری کے عالم میں۔ (دیکھئے بقرۃ آیت 204)۔ حضرت عائشہ (رض) کی قرآت میں کُذِّبُوا ہے وہ فرمایا کرتیں کہ بھلا پیغمبر اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ گمان کس طرح کرسکتے تھے کہ ان سے جھوٹا وعدہ کیا گیا ہے اس لئے كُذِبُواْکی بجائے کُذِّبُوا تشدید زال کے ساتھ ہے اور معنی یہ ہیں کہ پیغمبروں نے گمان کیا کہ ان کے ماننے والے شاید ان کی تکذیب کر رہے ہیں جیساکہ بخاری میں مذکور ہے۔ لیکن اگر ظن بمعنی وسوسہ ہوجیسا کہ اوپر مذکور ہوا تو اس میں کچھ بعد نہیں ہے۔ کذاقال ابن تیمیہ (رح)۔ (روح) شاہ صاحب لکھتے ہیں : یعنی وعدہ عذاب کو دیر لگی یہاں تک کہ رسول لگے نااُمید ہونے کہ شاید ہماری زندگی میں نہ آیا پیچھے آوے اور ان کے یار خیال کرنے لگے کہ شاید وعدہ خلاف تھا۔ اتنے خیال سے آدمی کافر نہیں ہوتا اگر جانتا ہے کہ یہ خیال بد ہے۔ (موضح)۔ ف 6۔ یعنی پیغمبروں کو ہماری مدد پہنچ گئی۔ ف 7۔ لہٰذا اب عذاب کے موخر ہونے سے دھوکا نہ کھائو۔