وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ ۗ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۗ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَوْا ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
اور ہم نے تجھ سے پہلے نہیں بھیجے مگر کچھ مرد، جن کی طرف ہم ان بستیوں والوں میں سے وحی کیا کرتے تھے، تو کیا وہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو متقی بنے۔ تو کیا تم نہیں سمجھتے۔
ف 3۔ یعنی شہروں کے رہنے والے مہذب، سنجیدہ اور بااخلاق نہ کہ جنگلی یادیہاتی قسم کے اجڈ، سنگدل۔ اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو کہا کرتے تھے۔İلَوۡلَآ أُنزِلَ عَلَيۡهِ مَلَكĬ ۔ اس۔ رسول ( علیہ السلام)۔ پر فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا۔ مطلب یہ ہے کہ اب تک جتنے لوگ بھیجے ہیں وہ سب شہری لوگ تھے اور وہ بھی مرد۔ اس آیت میں ان لوگوں کا بھی رد ہے۔ جو کہتے ہیں کہ چار عورتیں پیغمبر ہوئی ہیں۔ حوا، آسیہ، ام موسیٰ اور حضرت مریم ( علیہا السلام)۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ان عورتوں کو فرشتے کے ذریعہ وحی یا بشارت تو ضرور ملی ہے مگر یہ نبوت کو مستلزم نہیں (عرفا) نبی کی طرف وحی تشریعی کا ہونا لازم ہے اور اس قسم کی وحی (تشریعی) کسی عورت پرنازل نہیں ہوئی۔ (ابن کثیر)۔