لَّقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِّلسَّائِلِينَ
بلاشبہ یقیناً یوسف اور اس کے بھائیوں میں سوال کرنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں تھیں۔
ف 11۔ منقول ہے کہ قریش ہونے نے یہود کے اشارے پر۔ امتحاناً آنحضرت ﷺ سے یہ سوال کیا کہ حضرت ابراہیمﷺ کا وطن شام تھا تو بنی اسرائیل مصر میں کیسے آباد ہوگئے حتیٰ کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کے دور میں فرعون سے نجات حاصل کی۔ اس پر یہ سورت اُتری اور فرمایا کہ سوال کرنے والے کیلئے اس قصہ میں بہت سی نشانیاں ہیں انہوں نے ایک بھائی پر حسد کیا تو آخر کا۔ اسی کے متحاج ہوئے۔ اسی طرح یہود و حسد کی رہے ہیں اور قریش نے آنحضرت ﷺ کو وطن سے نکالا تو آخر کار اسی کا عروج ہوا۔ (کذافی الموضح) مگر یہ روایات اسرائیلی ہیں۔ حافط ابن کثیر (رح) نے ان کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس کے بالمقابل دوسری ایک دو روایت بحوالہ ابن جریر بیان کی ہیں کہ صحابہ (رض) کے سوال پر یہ سورت نازل ہوئی۔ بہرحال اگر اسرائیلی روایات کو معتبر مان لیا جائے تو نشانیوں سے مراد آنحضرت ﷺ کی نبوت ﷺ کی نشانیاں ہیں اور پوچھنے والوں سے مراد یہودی یا کفار مکہ اور اگر ان کا اعتبار نہ کیا جائے تو آیات سے مراد وہ عبرتیں ہیں جو حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے قصے میں پائی جاتی ہیں۔ اور پوچھنے والوں سے مراد وہ لوگ جو اللہ کی آیات کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ صاحب عالم ان عبرتوں کو خوب تفصیل سے لکھا ہے۔ (ابن کثیر۔ معالم)۔