قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
اس نے کہا اے میری قوم! کیا تم نے دیکھا اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے ہاں سے اچھا رزق عطا کیا ہو۔ اور میں نہیں چاہتا کہ تمھاری بجائے میں (خود) اس کا ارتکاب کروں جس سے تمھیں منع کرتا ہوں، میں تو اصلاح کے سوا کچھ نہیں چاہتا، جتنی کرسکوں اور میری توفیق اللہ کے سوا کسی سے نہیں، میں نے اسی پر بھروسا کیا اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
“ ف 7۔ تو میرے لئے یہ کیسے جائز ہے کہ میں تمہیں نیکی کا حکم نہ دوں اور برائی سے منع نہ کروں؟ اس آیت میں ” رزق حسن“ کا لفط دوہرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ایک نبوت اور علم حق کے معنی میں اور دوسرے حلال روزی (ذریعہ زندگی) کے معنی میں، کہتے ہیں کہ حضرت شعیب (رض) خود ایک مالدار آدمی تھے۔ (فتح القدیر)۔ ف 8۔ یعنی یہ جو میں تمہی ناپ تول میں بے ایمانی کرنے سے روک رہا ہوں، اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ تمہیں تو اس سے باز رہنے کی تلقین کروں اور خود اس کا ارتکاب کرکے خوب نفع اٹھادوں بلکہ میں تم سے جو بات بھی کہتا ہوں، پہلے خود اس پر عمل کرتا ہوں۔ تمام انبیاء ( علیہ السلام) اور اس امت کے سلف صالح کا بھی یہی شیوہ رہا ہے۔ (از بن اکثیر)۔ ف 9۔ تاکہ تمہارا دنیا و آخرت میں بھلا ہو۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یہ خصلت ہے خد اکے نیک لوگوں کی کہ چڑانے سے برا نہ مانا اور اپنے مقدور بھر سمجھاتے رہے۔ ف 10۔ کہ آج تم کو یہ نصیحت کر رہا ہوں جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کی کامیابی کا دار و مدار اللہ ہی کی توفیق پر ہے۔