سورة ھود - آیت 36

وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ تیری قوم میں سے کوئی ہرگز ایمان نہیں لائے گا مگر جو ایمان لاچکا، پس تو اس پر غمگین نہ ہو جو وہ کرتے رہے ہیں۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 2۔ یعنی اس کا وبال خود تم پر پڑے گا۔ اس آیت کے بارے میں مفسرین (رح) کا اختلاف ہے۔ بعض اسے حضرت نوح ( علیہ السلام) کے قصے ہی سے متعلق سمجھتے ہوئے اس میں خطاب حضرت نوح سے قرار دیتے ہیں ( جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہوتا ہے) اور بعض اسے حضرت نوح کے قصے کے درمیان جملہ معترضہ قرار دیتے ہیں اور اس کو مشرکین مکہ کا قول ٹھہرا کر آنحضرتﷺ کو مخاطب مانتے ہیں یعنی کیا (مکہ کے کافر) کہتے ہیں کہ (محمد ﷺ) نے اس (قرآن) کو اپنے دل سے گھڑ لیا ہے۔ (اے محمد ﷺ) کہدے اگر میں نے اسے اپنے دل سے گھڑ لیا ہے تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر پڑے گا اور تم جو گناہ کرتے ہو میں اس کی ذمہ داری سےبری ہوں۔ پہلی تفسیر حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے اور ” جملہ معترضہ“ کا قول مقاتل (رح) کا ہے۔ علمائے تفسیر (رح) میں سے امام رازی اور ان کےبالتبع امام شوکانی نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے اور لکھا ہے کہ یہی اکثر مفسرین کا قول ہے۔ حافظ ابن کثیر (رح) اور صاحب ’’کشف“ نے دوسری تفسیر کو راحج قرار دیا ہے اور یہی رائے شاہ عبد القادر (رح) کی ہے۔ (ایضا ملتقط من الروح)۔ ف 3۔ جب قوم کی تکذیب اور ایذا رسانی حد سے بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو یہ وحی کی جس کا بیان اس آیت میں ہے اور نوح کو قوم سے کلیتہ مایوس کردیا تو نوح (علیہ السلام) نے اللہ کے حضور التجا کی کہ میں بے بس ہوں ان سے مرا بدلہ لے۔ (القمر) اور بد دعا کی : İ‌رَّبِّ ‌لَا ‌تَذَرۡ عَلَى ٱلۡأَرۡضِ مِنَ ٱلۡكَٰفِرِينَ دَيَّارًاĬ اے پروردگار روئے زمین پر کافروں کا ایک گھر باقی نہ چھوڑ۔ (نوح)