فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ ۚ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
پھر شاید تو اس کا کچھ حصہ چھوڑ دینے والا ہے جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے اور اس کی وجہ سے تیرا سینہ تنگ ہونے والا ہے کہ وہ کہیں گے اس پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا، یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا ؟ تو تو صرف ڈرانے والا ہے اور اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔
ف 9۔ ان آیات میں آنحضرتﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کے شبہات، مطالبات اور طعن و تشنیع سے تنگ آکر کبیدہ خاطر نہ ہوجائیں بلکہ مشرک کی مذمت اور توحید کے اثبات کے متعلق جو وحی بھی آئے اسے بلا کم و کاست ان تک پہنچاتے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ وحی کا وہ حصہ حذف کردیں جس میں بتوں کی عیب جوئی ہے۔ (ابن کثیر)۔ ف 1۔ یعنی آپﷺ نے عذاب سے ڈرانے ولا بنا کر بھیجا ہے لہذا بلو خوف لومۃ لائم آپﷺ اس فریضہ کو سرانجام دیتے ہیں۔ (از وحیدی)۔ ف 2۔ یعنی ان کے مطالبات کو پورا کرنا یا نہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ ہر چیز اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ اگر چاہے تو آپﷺ کا ایک خزانہ کیا روئے زمین کے تمام خزانے دے دے گا اور ایک فرشتہ کیا آپﷺ پر سینکڑوں فرشتے اتار دے گا۔ بہرحال جیسی اس کی مصلحت و حکمت ہوگی ویسا ہی کرے گا۔ آپﷺ کو ان چیزوں سے کیا غرض۔ آپﷺ تو اللہ کا جو حکم آئے بے دھڑک ان کو مناتے رہیں۔ (کذا فی الوحیدی)۔