وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ
اور کسی شخص کے لیے ممکن نہیں کہ ایمان لائے مگر اللہ کے اذن سے اور وہ گندگی ان لوگوں پر ڈالتا ہے جو نہیں سمجھتے۔
ف 9۔ یعنی جس طرح تکوینی طور پر دنیا کی کوئی نعمت کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اسی طرح کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اسی طرح کسی شخص کو ایمان کی نعمت حاصل ہونے یا نہ ہونے کا انحصار بھی اللہ تعالیٰ کے اذن پر ہے۔ کوئی شخص اس نعمت کو نہ خود پاسکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کو عطا کرسکتا ہے۔ اس لئے اگر نبی چاہے بھی کہ تمام لوگوں کو مومن بنا دے تو نہیں بناسکتا۔ اس سے مقصود بھی آنحضرتﷺ کو تسلی دینا ہے (شوکانی) ف 10۔ یعنی اگرچہ ایمان کی توفیق دینے نہ دینے کا کلی اختیار اللہ تعالیٰ ہی کو ہے مگر اس کا قاعدہ یہ ہے اس نعمت سے وہ انہی لوگوں کو محروم رکھتا ہے اور انہی کو کفر و شرک کی نجاست میں پڑے رہنے کے لئے چھوڑتا ہے جو اس کی عطا کی کردہ عقل سے کام نہیں لیتے اور جس راستے پر اپنے باپ دادا کو چلتے دیکھتے ہیں اس پر آنکھیں بند کرکے چلتے رہنا پسند کرتے ہیں۔ (کذافی فکبیر والشوکانی)۔