فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ
سو کوئی ایسی بستی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لائی ہو، پھر اس کے ایمان نے اسے نفع دیا ہو، یونس کی قوم کے سوا، جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے ذلت کا عذاب دنیا کی زندگی میں ہٹا دیا اور انھیں ایک وقت تک سامان دیا۔
ف 4۔ یہ تیسرا قصہ ہے یعنی جن قوموں پر انبیاء کی تکذیب کی بدولت عذاب بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ان میں یونس ( علیہ السلام) کی قوم کے سوا کسی کو یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ عذاب ختم ہوجانے سے پہلے توبہ کر کیا ایمان لے آتی۔ اگر وہ ایسا کرتی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا اور اس سے عذاب ٹال دیتا۔ اول تو ان میں سے کوئی قوم ایمان نہیں لائی اور اگر لائی بھی تو اس وقت جب عذاب نے اسے آدبوچا (جیسے فرعون اور اس کے ساتھی) اور ظاہر ہے کہ اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ (شوکانی) مفسرین کے عام بیان کے مطابق قوم یونس کا مرکز ” نینویٰ“ کا مشہور شہر تھا جس کے آثار آج بھی دجلہ کے مشرقی ساحل پر موجودہ شہر موصل (شمالی عراق) کے بالمقابل پائے جاتے ہیں۔ موصل شہر کے قریب ” یونس نبی“ کے نام سے ایک بستی بھی پائی جاتی ہے۔ ف 5۔ عذاب ختم ہونے سے پہلے یا اس کی نشانیاں دیکھ کر (شوکانی) ف 6۔ یعنی موت تک انہیں مہلت دی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : کہ یونس (رض) نے اپنی قوم کے لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ جب انہوں نے اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا تو یونس ( علیہ السلام) یہ کہتے ہوئے بسی سے نکل گئے کہ تم پر فلاں دن عذاب آئے گا۔ انبیا کا قاعدہ تھا کہ جب وہ اپنی قوم کو عذاب سے خبردار کردیتے تو اپنی بستی سے باہر چلتے جاتے۔ اس کے بعد جب یونس ( علیہ السلام) کی قوم والوں نے عذاب کے آثار دیکھے تو عورتوں، بچوں اور مویشیوں سمیت گھروں سے نکل آئے اور خوف کے مارے چیخ پکار اور توبہ تلا کرتے ہوئے خدا کے حضور گڑگڑانے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں صدق واخلاص دیکھ کر ان کی توبہ قبول فرمائی اور ان پر سے عذاب ٹال دیا۔ (احسن الفوائد)۔ بعض مفسرین (رح) کا خیال ہے کہ ان پر سے صرف دنیا کا عذاب ٹالا گیا جس کی آیت میں تصریح کی گئی ہے مگر صحیح یہ ہے کہ ان پر سے عذاب آخرت بھی ٹال دیا گیا۔ (ابن کثیر)۔