فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ
پس آج ہم تجھے تیرے (خالی) بدن کے ساتھ بچالیں گے، تاکہ تو ان کے لیے نشانی بنے جو تیرے بعد ہوں اور بے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے یقیناً غافل ہیں۔
ف 8۔ یعنی عذاب نازل ہوجانے کے بعد توبہ کرنے اور ایمان لانے سے کیا فائدہ؟۔ (دیکھئے آیت 15)۔ حضرت عمر (رض) سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک اس پر جانگنی (غرغرہ) کی حالت طاری نہیں ہوجاتی۔ (ترمذی)۔ ف 9۔ آج تک جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر اس مقام کی نشاندہی کی جات ہے جہاں فرعون کی لاش سمندر میں تریتی ہوئی پائی گئی تھی۔ اس زمانے میں اس مقام کو جبل فرعون یا حمام فرعون کہا جاتا ہے اس کی جائے وقوع ابو زنیمہ (جہاں تانبے وغیرہ کی کانیں ہیں) سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے آج قاہرہ کے عجائب گھر میں جن فراعنہ کی لاشیں موجود ہیں۔ ان میں ایک لاش کو اسی فرعون کی لاش بتایا جاتا ہے۔ 7091 ء میں جب فراعنہ کی یہ لاشیں دریافت ہوئی تھیں تو اس فرعون کی لاش پر نمک کی ایک نہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو سمندر کے کھارے پانی میں اس کی غرقابی کی کھلی علامت تھی۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جیسا وہ بے وقت ایمان لایا بے فائدہ ویسا ہی اللہ نے مرگئے پیچھے اس کا بدن دریا سے نکال کر ٹیلے میں ڈال دیا تاکہ بنی اسرائیل دیکھ کر شکر کریں اور عبرت پکڑیں۔ اس کو بدن کے بچنے سے کیا فائدہ؟۔ (موضح)۔ تنبیہ۔ فتوحات مکیہ میں فرعون کا ایمان معتبر ہونا مندرج ہے۔ صاحب ” بواقیت“ نے اس کی تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ فتوحات کے معتبر نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے۔ ف 10۔ یعنی ان پر غور نہیں کرتے اور ان سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ اگر غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان کی بساط کیا ہے۔ یہ واقعہ محرم عاشورا کے دن پیش آیا۔ (ابن کثیر)۔