وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ
اور ان کے اکثر پیروی نہیں کرتے مگر ایک گمان کی، بے شک گمان حق کے مقابلے میں کچھ کام نہیں آتا۔ بے شک اللہ خوب جاننے والا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔
ف 2۔ یعنی ان مشرکین میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اللہ تعالیٰ کا قرار تو کرتے ہیں مگر اس اقرار کی بنیاد ظن اور تخمین پر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے متعلق اپنے اسلاف سے سنی سنائی باتوں کی اتباع کرت ہیں۔ ورنہ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی بت پرستی کی بیاد کسی دلیل پر نہیں ہے بلکہ اپنے باپ دادا کی پیروی کر رہے ہیں اور انہوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہمارے باپ دادا ٹھیک تھے۔ اس صورت میں اکثر بمعنی کل ہوگا۔ (کبیر)۔ یہی حال ہمارے زمانہ کے جاہل مسلمانوں کا ہے جو بزرگوں کی قربیں پوجتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ بزرگ اور اولیاء اللہ کے کارخانہ کے مختار ہیں۔ ایسے ہی بہت سے احمقوں نے شاہ پری، جن پری وغیرہ بنا رکھے ہیں۔ (از سلفیہ)۔ ف 3۔ یعنی دین کی بنیاد تو یقین پر ہے۔ محض اٹکل پچواء۔ باپ دادا کی اندھی تلقید پر نہیں ہے۔ یہاں ” ظن“ سے مراد وہ ظن ہے جو حسن کے خلاف ہو ورنہ ” ظن“ کے معنی یقین بھی آجاتے ہیں۔ (دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 04) اور جو خبر متواتر نہ ہو اس کو بی اہل اصول ظنی کہہ دیتے ہیں۔ اگر وہ صحیح اور حسن کے درجہ میں ہو تو واجب العمل ہیں۔ یہ امت محمدیہ کا اجماعی اور متفقہ عقیدہ ہے۔ اس لئے حدیث کو محض ظنی کہہ کر ہم رد نہیں کرسکتے۔