قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ
کہہ دے کون ہے جو تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ یا کون ہے جو کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے؟ اور کون زندہ کو مردہ سے نکالتا اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے؟ اور کون ہے جو ہر کام کی تدبیر کرتا ہے؟ تو ضرور کہیں گے ’’اللہ‘‘ تو کہہ پھر کیا تم ڈرتے نہیں؟
ف 4۔ بت پرستوں کے فضائح بیان کرنے کے بعد اب یہاں سے بت پرستی کی تردید میں دلائل کا بیان شروع ہوا ہے۔ (کبیر) الغرض یہاں تین چیزوں کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔ اول یہ کہ رزق اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کیونکہ رزق کا اصل سبب بارش اور زمین کی نباتات ہے اور یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں جس سے ثابت ہوا کہ رزق اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ف 5۔ دوم حواس جن میں سب سے اشرف سمع اور بصر ہیں جو انسان کے علم کا ذریعہ بنتے ہیں اور یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں اگر چاہے تو تمہیں اندھا بہرا کردے۔ (کبیر)۔ ف 6۔ سوم۔ موت و حیاۃ۔ جیسے جاندار سے نطفہ یا سرسبز لہلہاتی کھیتی سے خشک دانہ وغیرہ۔ ف 7۔ اللہ تعالیٰ ہی ان تمام چیزوں کا مالک ہے اسی کا سب اختیار ہے اور اسی نے سب کو پیدا کیا ہے۔ الغرض دنیا و آخرت کی تمام خیرات اللہ کی رحمت اور اس کے احسان سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ (کبیر)۔ ف 8۔ یا اس سے کیوں نہیں ڈرتے؟ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے وقت کے کافر بھی اس بات کے قائل تھے کہ کوئی اللہ کے برابر نہیں اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا مگر بتوں (یا بزرگوں) کو اس کی جناب میں اپنا وکیل اور وسیلہ سمجھ کر مانتے تھے اس سے کافر ہوگئے۔ سواب بھی جو کوئی کسی مخلوق کے لئے عالم میں تصرف ثابت کرے اور اپنا وکیل ہی سمجھ کر اس کو مانے اس پر شرک ثابت ہوجاتا ہے گو اللہ کے برابر نہ سمجھے اور اس کے مقابلہ کی طاقت اس کو نہ ثابت کرے۔ (سلفیہ)۔