وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي آيَاتِنَا ۚ قُلِ اللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ۚ إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ
اور جب ہم لوگوں کو کوئی رحمت چکھاتے ہیں، کسی تکلیف کے بعد، جو انھیں پہنچی ہو، تو اچانک ان کے لیے ہماری آیات کے بارے میں کوئی نہ کوئی چال ہوتی ہے۔ کہہ دے اللہ چال میں زیادہ تیز ہے۔ بے شک ہمارے بھیجے ہوئے لکھ رہے ہیں جو تم چال چلتے ہو۔
ف ٤۔ انہیں جھٹلاتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (ابن کثیر)۔ ف ٥۔ اللہ کی چال سے مراد ہو سزا ہے جو وہ مشرکین کو ان کی مکاریوں اور چالبازیوں پر دیتا ہے اور وہ ہے اس کا انہیں ان کا باغیانہ روش پر چھوٹ دینا اور انہیں اپنے رزق اور نعمتوں سے نوازتے رہنا تاکہ وہ جی بھر کر اپنا نامہ اعمال سیاہ کرتے رہیں۔ ف ٦۔ یعنی جب تمہارا نامہ اعمال خوب سیاہ ہوجائے گا تو اچانک موت کا پیغام آجائے گا اور تم اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے دھر لئے جائو گے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : سختی کے وقت آدمی کی نظر اسباب سے اٹھ کر اللہ پر رہتی ہے جب کام بن گیا تو لگا اسباب پر نگاہ رکھنے۔ سو ڈرتا نہیں کہ اللہ پھر ایک اسباب کھڑا کردے۔ اسی تکلیف کا اس کے ہاتھ میں سب اسباب تیار ہیں۔ ایک اسی کی صورت آگے اور فرمائی۔ (موضح)۔