وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ ۖ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ
اور اگر اللہ لوگوں کو برائی جلدی دے انھیں بہت جلدی بھلائی دینے کی طرح تو یقیناً ان کی طرف ان کی مدت پوری کردی جائے۔ تو ہم ان لوگوں کو جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے، چھوڑ دیتے ہیں، وہ اپنی سرکشی ہی میں حیران پھرتے ہیں۔
ف ٤۔ یعنی اللہ کا غضب نازل ہو اور وہ فوراً ہلاک ہوجائیں۔ ابتدا سورۃ سے منکرین نبوت کے شبہات اور ان کے جوابات کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔ یہاں سے ان کے دوسرے شبہ کا جواب دیا جا رہا ہے وہ کہا کرتے۔ اے اللہ ! اگر محمد ﷺ سچے ہیں تو ہم پر یا تو پتھر کی بارش ہو یا کوئی دوسرا دردناک عذاب آجائے“ اس آیت میں اسی شبہ کا جواب دیا ہے کہ اگر ایسا ہی ہو تو وہ فوراً ہلاک ہوجائیں۔ (کبیر)۔ بعض علماء نے اس کی تفسیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے۔ انسان جب اپنے لئے یا دوسروں کے لئے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو اسے جلد قبول فرماتا ہے لیکن جب غصے یا رنج میں آکر اپنے منہ سے اپنے یا اپنے بچوں یا دوسروں کے لئے بددعا کے کلمات نکالتا ہے تو وہ انہیں قبول نہیں فرماتا بلکہ ڈھیل اور مہلت دیتا ہے کہ شاید وہ اپنی اصلاح کرلیں اور اگر ایسا کرے تو لوگ جلد ہی ہلاک ہوجائیں (کبیر۔ ابن کثیر)۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی آدمی چاہتا ہے کہ نیکی کا بدلہ شتاب ملے یا نیک دعا شتاب لگے۔ سوا اگر حق تعالیٰ شتاب کرے تو انسان اپنی بدی کے وبال سے فرصت نہ پاوے مگر اللہ تعالیٰ کا دونوں میں تحمل ہے تاکہ نیک لوگ تربیت پاویں اور بد لوگ غفلت میں پڑے رہیں۔ (از موضح)۔ ف ٥۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :” اپنے لئے، اپنی اولاد کے لئے، اور اپنے مالوں ( غلاموں اور جانوروں) کے لئے بددعا نہ کیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم کسی ایسے وقت میں بد دعا کردو جس میں اللہ تعالیٰ اسے قبول کرلے اور تم تباہ ہوجائو۔ (ابو دائود)۔