إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۖ مَا مِن شَفِيعٍ إِلَّا مِن بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
بے شک تمھارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ کوئی سفارش کرنے والا نہیں مگر اس کی اجازت کے بعد، وہی اللہ تمھارا رب ہے، سو اس کی عبادت کرو۔ تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔
ف ٢۔ یعنی چھ دن کی مدت میں آسمان و زمین بنائے۔ (نیز دیکھئے اعراف ١٤٥)۔ ف ٣۔ یعنی اس ملک کا دربار ٹھہرا یا عرش پر، سب (ہر) کام کی تدبیر وہاں سے ہو۔ (موضح) نیز دیکھئے۔ (اعراف : ٤٥)۔ ف ٤۔ یہ مضمون کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر قناعت نہیں کرسکے گا قرآن کی متعددآیات میں بیان ہوا ہے مثلاً دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٥٥٢، سورۃ طہ آیت ٩٠١، السبا : ٣٢، سورۃ النجم : ٦٢۔ (قرطبی۔۔۔۔) قرآن نے جہاں مطلق شفاعت کے فائدہ مند ہونے کی نفی کی ہے وہاں یا تو کفار کا ذکر ہے اور یا بلا اذن شفاعت کی نفی ہے۔ ورنہ امت کے گنہگار مسلمانوں کے حق میں شفاعت صحیح احادیث سے ثابت ہے اور یہ بھی کہ آپﷺ کی شفاعت قبول کی جائے گی مگر یہ شفاعت بھی اللہ تعالیٰ سے اجازت کے بعد ہوگی۔ (کبیر۔ ابن کثیر) کفار جن بتوں کی پوجا کرتے تھے انکو اپنا سفارشتی سمجھتے۔ قرآن نے انہی کا رد کیا۔ (قرطبی)۔ ف ٥۔ ’ عبادت کے معنی ” پوجا کرنا“ بھی ہیں اور پوری زندگی ” عہد“ یعنی اس کا فرمانبردار بندہ بن کر گزارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے اور حاجت روائی کے لئے کسی غائبانہ طاقت کے پکارنے کو بھی عبادت کہا جاتا ہے۔ قرآن نے ہر قسم کی عبادت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص کیا ہے۔ پس ” فاعبدوا“ کے معنی ہیں اس کو پوجا کرو۔ اسی کو مشکلات دور کرنے کے لئے پکارو اور پوری زندگی اسی کی بندگی میں بسر کرو۔ زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اگر تم کسی اور کی بندگی اختیار کرو گے تو گویا اسے خدا کی خدائی میں شریک ٹھہرائو گے۔ ف ٦۔ اگر تم ذرا بھی غوروفکر سے کام لو تو تمہیں یقینا معلوم ہوجائے گا کہ صرف خدا کی ہستی ہی عبادت کے لائق ہے۔ اس کے علاوہ جن کی بندگی کرتے ہو یا جن کے سامنے ماتھے رگڑتے ہو یا نذر نیازیں پیش کرتے ہو وہ یا تو تم ہی جیسے بے کس و لاچار انسان ہیں یا وہ بت ہیں جنہیں اگر کوئی توڑ دے تو اپنی حفاظت تک نہیں کرسکتے۔ کیا تمہیں نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں؟۔