مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں، اس کے بعد کہ ان کے لیے صاف ظاہر ہوگیا کہ یقیناً وہ جہنمی ہیں۔
ف ٥ ابتدا سورت سے لے کر یہاں تک مشرکین اور منافقین سے کلی طور پر اظہار برأت کا اظہار بھی لازم ہے اور ان کے لئے استغفار جائز نہیں۔ (کبیر) اس آیت کی شان نزول کے بارے میں متعدد روایات ہیں۔ صحیحین میں حضرت سعید بن مسیب اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ابو طالب کی وفات کے وقت آنحضرت اس کے پاس تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا :” چچا ! لا الہ الہ اللہ کہہ دیجیے تاکہ میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں تیرے بارے میں کچھ عرض کرسکوں ابوجہل اور ابن امیہ بھی پاس بیٹھے تھے وہ کہنے لگے ابو طالب کیا تو عبدالمطلب کے دین سے منہ موڑ رہا ہے آنحضرت تلقین کرتے رہے اور کافر اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر کار مرتے وقت ابو طالب علی ملۃ عبدالمطلب کہہ کر مر گیا۔ آنحضرت نے فرمایا :” میں تیرے لئے اس وقت تک مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کردیا جائے۔“ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ دوسری مقبولیت مسند احمد وغیرہ میں ہے کہ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ نے جب کہ ایک ہزار صحابہ آپ کے ہمراہ تھے اپنی والدہ حضرت آمنہ کی قبر پر دعا کرنے کی اجازت طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے اجازت نہ دی جس پر آنحضرت خوب روئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) علاوہ ازیں اور بھی روایات مذکور ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی شرح بخاری فتح الباری میں لکھتے ہیں یہ سارے واقعات نزول آیت کا سبب بن سکتے ہیں مگر جن روایات میں یہ مذکور ہے کہ آنحضرت کے والدین کو زندہ کیا گیا اور ایمان لا کر پھر فوت ہوگئے یہ سب روایات حسب تصریح حافظ ابن کثیر و دیگر محققین پایہ ثبوت سے ساقط ہیں لیکن اس مسئلے میں سکوت میں ہی احتیاط ہے۔ (ت ۔ ن )