وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور جب ابراہیم اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہا تھا اور اسماعیل بھی۔ اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما، بے شک تو ہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
ف 2 اس آیت میں خانہ کعبہ کی تعمیر کا تذکرہ ہے۔ اس کی تعمیر پر مختلف ادوار گزر چکے ہیں۔ آیت سے ظاہر ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کا سنگ بنیاد رکھا اور پھر اس کی تعمیر کی بعض مفسرین نے بیت اللہ (کعبہ) کی قدامت ثابت کرنے کے لیے اس کا آدم (علیہ السلام) سے بھی پہلے کا قرار دیا ہے بلکہ یہاں تک کہ منھامدت الا رض اور یہ کہ خانہ کعبہ آسمان سے نازل ہوا، طوفان نوح کے وقت دوبارہ آسمان پر آٹھا لیا گیا۔ آدم (علیہ السلام) اور ان کے بعد جملہ انبیاء اس کی زیارت سے مشرف ہوتے رہے۔ عرفہ کے مقام پر حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا (علیہ السلام) کا تعارف ہوا اور جدہ میں حضرت ام ما حوا (علیہ السلام) کی قبر ہے وغیرہ اسی طرح حضر اسود کے متعلق بھی عجیب وغریب حکایات نقل کردی ہیں مگر کعبہ کا شرف تو محض اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قبلہ قرار دیا ہے ورنہ وہ بھی ایک عمارت ہے جو مکہ کی پہاڑیوں کے پتھر سے تعمیر ہوئی ہے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام جسم ولباس میں ہمارے جیسے بشر ہوتے ہیں مگر شرف نبوت سے سرفراز ہونے کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں سے افضل اور ممتاز ہوجاتے ہیں چنانچہ حضرت عمر (رض) نے حجر اسود کا استلام کرتے وقت فرمایا میں جانتا ہوں کہ توایک پتھر ہے جس میں نفع نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں ہے میں صرف اس لے ؛ ا ستلام کرتا ہوں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تیرا استلام کرتے دیکھا ہے۔ ابن لوگوں نے کعبہ حجراسود اور غلاف کعبہ کے متعلق مختلف قسم کی رسوم و بدعات اختیار جن کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ (المنار جاہلیت میں جب قریش نے بیت اللہ کی تعمیر کی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک 35 سال تھی۔ قریش کے نزاع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجر اسود کو اس کے مقام پر اپنے دست مبارک سے کھا۔ دور اسلام میں پہلی مرتبہ حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) نے بیت اللہ دوبرہ تعمری کیا اس کے بعد عبدالملک کے دور خلافت میں حجاز نے اس کی از سرنو تعمیر کی اور جاہلی طرز پر بنا دیا۔ حدیث میں ہے کہ آخر زمانہ میں ایک حبشی خانہ کعبہ کو ویران کرے گا۔ (ابن کثیر )