وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ
اور ان لوگوں میں سے جو تمھارے ارد گرد بدویوں میں سے ہیں، کچھ منافق ہیں اور کچھ اہل مدینہ میں سے بھی جو نفاق پر اڑ گئے ہیں، تو انھیں نہیں جانتا، ہم ہی انھیں جانتے ہیں۔ عنقریب ہم انھیں دو بار عذاب دیں گے، پھر وہ بہت بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
ف 4 پہلے منافقین اعراب (بدویوں) کا ذکر فرمایا پھر اعراب میں سے مخلصین کا تذکرہ کیا۔ ان کے بعد مہاجرین و انصار کو خوش خبری دی اور انکے لیے بلند مراتب کا بیان فرمایا۔ اب ان ضمنی مباحث کے بعد پھر منافقین کا تذکرہ شروع کیا جو مدینہ اور اس کے ماحول میں رہتے ہوئے اپنے نفاق میں اتنے مشاق اور ماہر ہوگئے ہیں کہ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود اپنی فراست نافذہ اور قوت حدس کے ان سب کو معین طور پر نہیں پہچان سکتے گو بعض کو ان کے لہجے اور دوسری علامات سے پہچانتے ہوں۔ (دیکھیے سورۃ محمد آیت 30) لہذا جن روایات میں یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض منافقین کے نام بھی حضرت حذیفہ کو بتا دئیے تھے وہ اس آیت کے منافی نہیں ہے کیونکہ یہاں کلی طور پر سب کو جاننے کی نفی ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر 9 ف 5۔ ایک تو دنیا میں غم و اندوہ اور فکر مندی کا عذاب جس میں منافقین ہمیشہ مبتلا رہتے۔ یحسبون کل صیحۃ علیہم۔ کہ وہ ہر لمحہ اپنے تئیں خطرہ میں محسوس کرتے رہتے ہیں اور پھر رسوئی بھی جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض منافقین کے نام لے کر ان کو مسجد سے نکال دیا اور مرنے کے بعد قبر کا عذاب۔ اسی کو دوسرا عذاب فرمایا۔ (کبیر) ف 6۔ یعنی دوزخ کا عذاب۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : مرتین، یعنی دنیا میں تکلیف پر تکلیف پاویں گے پھر آخرت میں پکڑے جاویں گے۔ (از موضح)