يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا ۚ وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۚ فَإِن يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ ۖ وَإِن يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
وہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انھوں نے بات نہیں کہی، حالانکہ بلاشبہ یقیناً انھوں نے کفر کی بات کہی اور اپنے اسلام کے بعد کفر کیا اور اس چیز کا ارادہ کیا جو انھوں نے نہیں پائی اور انھوں نے انتقام نہیں لیا مگر اس کا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انھیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔ پس اگر وہ توبہ کرلیں تو ان کے لیے بہتر ہوگا اور اگر منہ پھیر لیں تو اللہ انھیں دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب دے گا اور ان کے لیے زمین میں نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مدد گار۔
ف 5 اس آیت میں کن منافقین کا ذکر ہے اور وہ کلمہ کفر کیا ہے جس کی طرف قرآن نے یہاں اشارہ فرمایا ہے۔ اس بارے میں مفسرین (رح) کے کئی اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سبھی منافقین کا حال تھا کہ وہ کفر کی باتیں کرتے رہتے تھے اور جب ان سے دریافت کیا جاتا تو قسمیں کھاکھا کر انکار کردیتے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت جلاس بن سوید اور ودیعہ بن ثابت کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ اس طرح کہ جب غزوہ تبوک کے موقع پر کثرت سے منافقین کے متعلق قرآن اترنا شروع ہوا تو یہ دونوں کہنے لگے اگر محمد (ﷺ) ہمارے بھائیوں کے بارے میں جو ہمارے سردار ہیں سچ بات کہتے ہیں تو ہم گدھوں سے بدتر ہیں۔ اس پر ایک سچے مسلمان عامر بن قیس یا زید بن ارقم نے کہا ہاں محمد (ﷺ) سچے ہی ہیں اور تم لوگ گدھوں سے بدتر ہو۔ پھر عامر نے یہ بات آنحضرت (ﷺ) تک پہنچادی۔ جب آپ (ﷺ) نے جلاس سے دریافت کیا تو وہ قسمیں کھاکھا کر کہنے لگا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ عامر (رض) نے بھی قسم کھائی کہ میں سچ کہتے ہوں۔ اور پھر اللہ كے حضور دعا کی کہ یا اللہ ! اس بارے میں اپنے رسول (ﷺ) پر وحی نازل فرما۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور رسول اللہ (ﷺ) نے زید بن ارقم کو دعا دی (او فی اللہ با ذنک) کو جو کچھ سنو اللہ اسے پورا کر دے۔ اور بعض روایات میں عمیر بن سعد کا نام بھی مذکور ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یه منا فقوں کے سرار عبد اللہ بن ابیّ کے بارے میں ا تری ہے ۔ ایک مرتبہ ایک سفر میں اس نے یہ بات کہی تھی کہ جب ہم مدینہ واپس پہنچیں گے تو عزت ولا شخص ذلیل کو نکال باہركر یگا اور ذلیل سے مراد نبی (ﷺ) کو لیا۔ اس کی یہ بات جب نبی (ﷺ) وسلم تک پہنچی آپ (ﷺ) نے اس سے دریافت کیا وہ قسمیں کھاکھا کر انکار کرے گا ( فتح القدیر) ف 6 بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے غزوہ تبوک کے سفر میں ایک رات نبی (ﷺ) کو قتل کرنے کی سازش کی ۔بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے عبدالله بن ابی ّکو مدینہ کابادشاہ بنانے کے لیے اسے تاج پہنانے کا پروگرام بنایا اور بعض مفسرین (رح) کا قول ہے کہ یہاں اس طرف اشارہ ہے کہ جلاس نے اس شخص کو قتل کرنے کا ارادہ کیا جس نے نبی (ﷺ) تک اس کی بات پہنچائی تھی۔ ( شو کانی) ف7 پہلے یہ لوگ فاقوں مرتے تھے اور ان کے شہر مدینہ، جس کا ان دنوں یثرب نام تھا، کی بھی کوئی حیثیت نہ تھی لیکن نبی (ﷺ) کی تشریف آوری کے بعد ان کا شہر پورے عرب کا مرکز بن گیا اور ان کی تجارت کا دائرہ بھی وسیع ہوگیا اور جنگوں کی وجہ سے بہت سا مال غنیمت بھی ان کے ہاتھ آیا جس سے یہ لوگ مالدار ہوگئے۔ آیت میں اسی طرف اشارہ ہے کہ یہ منافقین اتنے فراموش ہیں کہ جن اللہ و رسول (ﷺ) کی بدولت انہیں یہ خو شحالی نصیب ہوئی انہی کے خلاف یہ بگڑ بگڑ کے اپنے دلوں کے فساد ظاہر کر رہے ہیں۔ ف 8 کہتے ہیں کہ جلاس نے توبہ کرلی اور وہ سچا مسلمان ہوگیا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ منافق کا اور کافر کی تو بہ قبول ہوسکتی ہے۔