إِن تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۖ وَإِن تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِن قَبْلُ وَيَتَوَلَّوا وَّهُمْ فَرِحُونَ
اگر تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو انھیں بری لگتی ہے اور اگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو کہتے ہیں ہم نے تو پہلے ہی اپنا بچاؤ کرلیا تھا اور اس حال میں پھرتے ہیں کہ وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔
ف 12 یہ بھی ان کے خبث باطن اور مکر و فریب کی ایک دلیل ہے کہ ہر ایسے موقع پر اپنی ہو شمندی کا ثبوت دیتے اور کہتے کہ ہم نے تو پہلے ہی بچاؤ کرلیا تھا جیسے جنگ احد کے بعد عبد اللہ بن ابی منافق نے کہا تھا کہ تو اس وجہ سے پلٹ آئے تھے ہمیں معلوم تھا کہ مسلمانوں کو شکست ہوگی اور وہ مارے جائیں گے۔ ایسے ہی وہ منافق جو غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ میں رہ گئے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے متعلق یہ مشہور کرتے رہے کہ یہ لوگ ہلاک ہوگئے لیکن جب انہیں اطلاع ملی کہ مسلمان صحیح وسالم واپس آرہے ہیں تو انہیں انتہائی غم ہوا۔ ( کبیر، ابن کثیر )