إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی، جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنھوں نے کفر کیا، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے اپنی سکینت اس پر اتار دی اور اسے ان لشکروں کے ساتھ قوت دی جو تم نے نہیں دیکھے اور ان لوگوں کی بات نیچی کردی جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی بات ہی سب سے اونچی ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
ف 7 یہاں باتفاق مفسرین (رح) ثانی اثنین سے حضرت ابوبکر (رض) مراد ہیں اور اکثر منا صب دینیہ میں حضرت ابو بکر (رض) دوسرے درجے پر فائز رہے ہیں۔، سب سے پہلے مسلمان ہوئے اور لوگوں کو دعوت الی اللہ دی جس پر بہت سے جلیل قدر صحا بہ مسلمان ہوئے، غزوات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الگ نہیں ہوئے۔ مر ضالموت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قائم مقام کی حیثیت سے مصلیٰ پر کھڑے ہوئے اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلو میں دفن ہوئے۔ اس طرح اول و آخر حضرت صدیق اکبر کو ثانی اثنین ہونے کا شرف حاصل رہا ہے ( ازکبیر) ف 8 یہاں صاحب ہونے کا شرف بھی حضرت ابو بکر (رض) کر حاصل ہے۔ شاد صاحب لکھتے ہیں کہ رفیق غار حضرت ابو بکر (رض) تھے صرف یہی حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے دوسرے اصحاب دوسرے اصحاب بعض پہلے نکل گئے تھے بعض بعد میں آئے۔ ( از مو ضح) ف 9 یہ اس وقت کا ذکر ہے جب مکہ والوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کی قرار داد پاس کی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے وقت حضرت ابو بکر (رض) کی معیت میں مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور کفار کے تعاقب سے بچنے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غار ثور میں پناہ لی۔ وہاں تین چھپے رہے پھر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گرفتاری پر انعام مقرر ہوچکا تھا اس لیے دشمنوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاش میں ہر ممکن کوشش کی حتی کہ بعض لوگ غار کے سرے پر پہنچ گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے پاؤں نظر آنے لگے، حضرت ابو بکر (رض) کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اندیشہ لاحق ہوا اندیشہ ظاہر کیا کہ الہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر انہوں نے ذرا بھی نیچے جھانک لیا تو وہ یقینا ہمیں دیکھ لیں گے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سکون میں ذرا بھر فرق نہ آیا۔ حضرت ابو بکر (رض) کو تسلی دیتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا تحزن ان اللہ معنا۔ اس میں حضرت ابو بکر (رض) بھی شامل ہیں۔ ( کبیر) ف 10 یہ جنگ بدر میں فرشتوں کی امداد کی طرف اشارہ ہے اور اس اک عطف فقد نصرہ اللہ پر ہے۔ ( رازی )