يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّمَن فِي أَيْدِيكُم مِّنَ الْأَسْرَىٰ إِن يَعْلَمِ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا يُؤْتِكُمْ خَيْرًا مِّمَّا أُخِذَ مِنكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے نبی! تمھارے ہاتھ میں جو قیدی ہیں ان سے کہہ دے اگر اللہ تمھارے دلوں میں کوئی بھلائی معلوم کرے گا تو تمھیں اس سے بہتر دے دے گا جو تم سے لیا گیا اور تمھیں بخش دے گا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
ف 8 جب بدر کے قیدی لائے گئے تو بعض نے اسلام کا اظہار کیا اور کہا کہ میں نے اکراہ وجبر کے تحت جنگ میں شرکت کی تھی ان میں حضرت عباس (رض) بھی تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ان کو فدیہ کی معافی نہ دی گئی، چنانچہ حضرت عباس کہا کرتے تھے کہ مجھ سے فدیہ میں بیس اوقیہ سونا لیا گیا اس کے بدلے مجھ اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا میں یہ دیا کہ میرے پاس بیس ایسے غلام ہیں جن میں سے اہر ایک سوداگری کرتا ہے علاوہ ازیں، مجھے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی بھی امید ہے۔ ( حاکم، بیہقی) ف 1 ف 1 بد ر کے قید یہوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا عباس اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے داماد ابو العاص اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچازاد بھائی نوفل اور عقیل بھی شامل تھے، حضرت عائشہ (رض) کا بیان ہے کہ ابو لعاض (رض) کو چھڑانے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی زینب نے مکہ سے ایک ہار بھیجا جو انہیں حضرت خدیجہ نے دیا تھا۔ اسے دیکھ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رقت طاری ہوگئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) سے فرمایا کہ اگر تم راضی ہو تو میں زینب (رض) کے قیدی کو یہ ہار لیے بغیر رہاکر دوں۔ تمام اصحاب (رض) اسے بخوشی منظور کرلیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا عباس (رض) سے فدیہ طلب فرمایا تو وہ کہنے لگے میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ آپ کا وہ مال کہاں ہے جسے آپ نے اور آپ کی بیوی ام الفضل نے نل کر زمین میں دفن کیا ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت عباس بولے بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اس لیے کہ اس سو نے کا میرے اور ام فضل کے سوا کسی کو علم نہیں ہے پھر حضرت عباس (رض) نے اپنا اور اپنے دو بھتیجوں کا اور اپنے حلیف عتبہ بن عمروکا فدیہ ادا کیا۔ ( ابن کثیر )