الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ
اب اللہ نے تم سے (بوجھ) ہلکا کردیا اور جان لیا کہ یقیناً تم میں کچھ کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو صبر کرنے والے ہوں تو دو سو پر غالب آئیں اور اگر تم میں سے ہزار ہوں تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
ف 3 یعنی انہیں اللہ پر ایمان اور اس کے ثواب پر یقین نہیں ہے اور جس کو یقین ہے اس کو مت کا کیا ڈر ؟۔ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب گزشتہ آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں کی اپنے سے دس گنا کفار کے مقابلے میں ڈٹے رہنا کا حکم دشوار معلوم ہوا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں اپنے سے دو چند کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا ضروری اور بھاگنا فرار دیا گیا ہے۔ اب یہ حکم قیامت تک کے لیے قائم ہے۔ اگر کفار دو چند سے زیادہ ہوں تو بھاگنا گناہ نہیں لیکن لڑنا اور جمے رہنا بہر حال افضل ہے جیسا کہ عہد نبوی اور خلفائے راشدین (رض) کے عہد کے بعض واقعات سے معلوم ہوتا ہے، ( از ابن کثیر و قرطبی )