وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں سے منع کرے کہ ان میں اس کا نام لیا جائے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے؟ یہ لوگ، ان کا حق نہ تھا کہ ان میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کے لیے دنیا ہی میں ایک رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔
ف 2 ابن جریر لکھتے ہیں کہ اس سے بخت نصر اور عیسائی جنہوں نے بیت المقدس کی تخریب کی اور یہود کو اس سے روک دیا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے بھی یہی روایت ہے کہ عیسائیوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کہ انہوں نے محض عداوت کی بنا پر یہود کو بیت المقدس میں عبادت گزازنے سے روک دیا تھا۔ (قرطبی) مگر بخت نصر کا زمانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے 233 سال قبل کا ہے پھر دو اور ان کے مدد گا عیسائی کیسے مرادہو سکتے ہیں۔ (المنار۔ الجصاص) لہذا اس سے مراد یا تو وہ عیسائی ہو سکتے ہیں جنہوں نے نطوس یا یتطوس رومانی کے ساتھ مل کر بنی اسرائیل سے جنگ کی اور بیت المقدس کو ویران کیا اور یہ آیت مشر کین کے حق میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو عمرہ سے روک دیا تھا جس کے نتیجہ میں صلح حدیبیہ ہوئی اور کسی مسجد میں لوگوں کو عبادت سے روکنا اس کو ویران کرنے کے مترادف ہے۔ (رازی۔ قرطبی) حافظ ابنالقیم لکھتے ہیں کہ آخری قول اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ مسئلہ اہل کتاب کے معبودوں کی بے حرمتی تو ممنوع ہے مگر اولیاء اور بزرگان دین کے مقابر پر جو مساجد بنی ہوئی ہیں۔ یہ چونکہ عبادات بغیر اللہ کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں اس لیے ان کا گزانا ضروری ہے جیسا کہ انحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد ضرار کو گرا دینے کا حکم دیا تھا۔ (المنار بحوالہ الزواجر لا بن حجر مکی) اس میں پیش کوئی بھی کی ہے کہ آئندہ یہ مشرک بیت اللہ (کعبہ) میں چھپ چھپا کر ہی داخل ہو سکیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور 9 ھ میں الا لا حیجن بعدا لعام مشرک کا اعلان کردیا گیا۔ (ابن کثیر) ف 3 یہاں خزی سے ہر قسم کی رسوائی مرادہو سکتی ہے اور اس رسوائی کی یہ سزا یہود ونصاری اور مشرکین تینوں گروہ پاچکے ہیں۔ (ابن کثیر )