وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ ۖ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ ۚ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اور جب شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوشنما بنا دیے اور کہا آج تم پر لوگوں میں سے کوئی غالب آنے والا نہیں اور یقیناً میں تمھارا حمایتی ہوں، پھر جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو وہ اپنی ایڑیوں پر واپس پلٹا اور اس نے کہا بے شک میں تم سے بری ہوں، بے شک میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے، بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ بہت سخت عذاب والا ہے۔
ف 5 یعنی ان کے ذہنوں یہ غرور بھر دیا، فالقول مجاز عن الو سو ستہ ابن جریر (رح) وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ قریش اور بنو کنانہ میں سخت دشمنی تھی جب قریش مسلمانوں سے مقابلہ کے لیے نکلے تو انہیں ڈرہوا کہ کہیں پیچھے سے بنو کنا ہم پر حملہ نہ کردیں اس وقت شیطان بنو کنانہ کے ایک سردار سراقہ بن مالک کی صورت میں ان کے ساتھ شریک ہوگیا اور اپنے ساتھ ایک جھنڈا اور شیطا نوں کا ایک لشکر بھی لے آیا۔ اسی وقت قریش سے اس نے وہ بات کہی جو اس آیت میں مذکورہے ( ابن کثیر) واضح رہے کہ شیطان کا انسانی شکل میں آنان مستبعدا نہیں فالقول علی مضاۃ ا حقیقی۔ ف 7 یعنی سب کچھ بھول گیا اور بھاگ نکلا۔ ف 7 یعنی مجھے وہ فرشتے نظر آنے لگے ہیں جو مسلمانوں کی مدد کے لیے آئے ہیں اور تمہیں نظر نہیں آرہے، ف 8 صرف اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے اس نے یہ بہانہ بنایا ورنہ اس مردود کو اللہ تعالیٰ کا ڈر کہاں تھا َ؟ ( از وحیدی) حدیث میں ہے کہ عرنہ کے دن جب شیطان اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول اور بڑے بڑے گناہوں کی اس کی طرف سے معافی کو دیکھتا ہے تو اس کی ذات کی انتہا نہیں رہتی لیکن بدر کے دن جب اس نے حضرت جبریل ( علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ فرشتوں کی صفو کی تر تیب دے رہے ہیں تو عرفہ کے دن سے بھی زیادہ ذلیل نظر آنے لگا۔ ( مو طہ )