سورة الانفال - آیت 42

إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ۙ وَلَٰكِن لِّيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جب تم قریب والے کنارے پر اور وہ دور والے کنارے پر تھے اور قافلہ تم سے نیچے کی طرف تھا اور اگر تم آپس میں وعدہ کرتے تو ضرور مقرر وقت کے بارے میں آگے پیچھے ہوجاتے اور لیکن تاکہ اللہ اس کام کو پورا کردے جو کیا جانے والا تھا، تاکہ جو ہلاک ہو واضح دلیل سے ہلاک ہو اور جو زندہ رہے واضح دلیل سے زندہ رہے اور بے شک اللہ یقیناً سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 یعنی وادی بدر کے اس سرے پر جو مدینہ منورہ کی سمت ہے۔ ( کبیر) ف 5 یعنی ساحل بحر کی طرف، یہ منصوب علی الطرفیتہ ہے یا موضع حال میں ہے جیسا کہ جمہور علمان کا خیال ہے جنگ کے اس نقشہ کو بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ اسو قت بظاہر یہ نظر آرہا تھا کہ دشمن طاقتور ہے اور مسلمان کمزور اور ناتواں ہیں لیکن ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی۔ ( روح) ف 6 یعنی تم اپنے مقابلے میں ان کی کثرت تعداد سے ڈرتے اور وہ رسول اللہ صلعم کے رعب اور ہیبت سے ( کذافی الوحیدی) ف 7 مراد اہل اسلام کی فتح اور اہل کفر کی شکست ہے۔ ( ازا بن کثیر) ف 8 یا یہ کہ اتمام حجت ہو اور کسی کے لیے عذر کا ماقع نہ رہے یعنی اس کے بعد اگر کوئی کافر رہے تو دلیل دیکھکر کافر رہے ( اور ہلاکت میں پڑے) اور جو کوئی مسلمان ہو تو وہ بھی دلیل دیکھ کر مسلمان ہو۔ ( وحیدی )