وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ ۚ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور اللہ نے اسے نہیں بنایا مگر ایک خوش خبری اور تاکہ اس کے ساتھ تمھارے دل مطمئن ہوں اور مدد نہیں ہے مگر اللہ کے پاس سے۔ بے شک اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
ف 4 آیت کے الفا ظ سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ فرشتوں نے خود لڑنے میں کوئی حصه نهیں لیا بلكه الله تعالیٰ نے انهیں مسلمانوں كی مدد كے لیے محض اس لیے بھیجا تھا کہ ان کے حوصلے بلند ہوں اور انہیں اطمینان رہے کہ انکی مدد کے لیے فرشتے موجود ہیں لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث سے صراحة ً معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں نے لڑائی میں بھی حصہ لیا۔ اگرچہ غزوہ بد رکے علاوہ کسی دوسری جنگ میں انہوں نے لڑکر حصہ نہیں لیا) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جنگ بدر کے موقع پر ایک انصاری مسلمان کسی کافر کا پیچھا کر رہا تھا کہ اچانک اس نے اوپر سے ایک کوڑے کی آواز سنی اور ایک گھڑ سوارنے اپنے گھوڑے کو پکارا حیزوم ! آگے بڑھو۔ اس نے اپنے سامنے کافر کو دیکھا کہ وہ لڑکھڑا کر گرا اور گرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، اس انصاری نے اس واقعہ کا آنحضرت (ﷺ) سے تذکرہ کیا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: تم نے سچ کہا یہ تیسرے اسمان کی مدد تھی۔ ( ابن کثیر، بحوالہ صحیح مسلم ) ف 5 یعنی یہ سمجھو کہ تمہیں جو فتح نصیب ہوئی ان فرشتوں کی وجہ سے ہوئی حقیقت میں مدد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ چاہتا تو فرشتوں کے بغیر ہی تمہیں فتح نصیب کردیتا مگر جہاد کی مشر وعیت سے تمہارے ایمان کا امتحان مقصود ہے شہادت سے تمہارے در جے بلند اور کافروں کو تمہارے ہاتھ سے ذلیل کرنا ہے۔ امم سابقہ میں سے جو امت تکذیب کرتی اس پر کسی طرح کا عذاب نازل ہوجاتا، حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر فرعو ن کے غرق ہونے تک یہی سلسلہ قائم رہا آخر کار جب موسیٰ ( علیہ السلام) پر تورات نازل ہوئی تو جہاد شروع ہو اور اس کے بعد یہی طریقہ جاری ہے۔، ( ابن کثیر)